Saturday, 31 December 2022

New year celebration and youth generation Conduct

 First of all, celebrating New Year is against Islam. Islam is a simple religion, it likes simplicity, there is no room in Islamic society for myths, rhetoric and unnecessary actions. According to Islam, the best action is that which is based on worshiping and obeying Allah and serving God's creation. Why is there so much joy at the end of the year starting from January? What is the reason for the frenzy to celebrate it? Is this procedure suitable for Muslims? Does Muslims have anything to do with this new year? Then why are Muslims doing this work today? After all, who invented it? Which nation celebrates New Year? Why celebrate? And what attitude should Muslims adopt at this time?

Actually, this New Year celebration is invented by Christians, the tradition of celebrating New Year has been going on among Christians since ancient times. According to their belief, Jesus was born on December 25. Christmas Day is celebrated with joy, leading to a state of celebration around the world that continues until the arrival of the New Year. The country is decorated with colorful lights and lanterns to celebrate the New Year, and On December 31, people stay up late and prepare to celebrate the new year. As soon as the clock strikes 12 people come out of their houses. Walks begin at entertainment venues, dances and entertainment programs take place. In this way, the coming year is welcomed and the outgoing year is sent away.

Today, like these Christians, many Muslims also look forward to the New Year and eagerly wait for the 31th of December. While this is the case for Christians. The Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said: "He who imitates a nation becomes one of them." Muslims have their own lunar Islamic system of history, which is connected with the migration of the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him), which begins with Muharram al-Haram. Then why do Muslims celebrate the arrival of this new year?

Islam absolutely does not allow us that people go out of their way on New Year or any other occasion, burst firecrackers, set off fireworks, organize dances and dances, participate in various events. The worrying thing is that the methods being adopted to celebrate the New Year are very dangerous for the society. It is having negative effects on the young generation, nudity and obscenity are increasing. Dance and song programs are organized in which the young generation participates in large numbers and on the other hand different circles are highlighted who discuss the fundamental beliefs of Islam through print media and electronic media. Kobeja is used to target new generations in particular.

The place to think is how to protect the new generation from all these things. The need is that how to protect Muslim societies, neighborhoods and Muslim populations from such events? In this regard, people who are responsible for the nation can play an important role. If the Muslim Ummah is not informed about the results during western celebrations like New Year and they are left to their own devices, then such obscene acts and gossips will occur in the Muslim society. It will bring dire consequences in the society.

Apart from this, we need to take account of ourselves, how many good deeds and how many bad deeds have been recorded in our deeds. Have we recorded such good deeds in our records this year that we will be happy to see them on the Day of Resurrection and that will be beneficial for us in this world and the hereafter? We have to take account of ourselves that there has been no decrease in obedience to Allah this year. Did we obey or disobey Allah and His Messenger? Are our neighbors safe from our suffering or not? Did we pay the rights of parents, neighbors and relatives or not? Apart from this, we should take account of our lives in the field of worship, matters, halal and haram, and payment of deeds and see where we have made mistakes. If we look back at the past year, we have had less joys and more sorrows in this year. How many tragedies have happened? Have you found what you are celebrating for? How can you celebrate in this atmosphere of oppression and oppression?

An atmosphere of celebration and happiness is created when there is peace and prosperity everywhere. While Muslims are becoming economically, socially and educationally weak and politicians are busy fooling the people in the process of saving their seat or creating their seat. How can you celebrate the New Year? Muslims! Now wake up. How long will you live in the slavery of non-Muslims? This festival is illegal in all respects. It has nothing to do with our culture and our society. It is also against our values. Our beloved Prophet Hazrat Muhammad Mustafa ﷺ is a model for the whole world and following his Sunnah, Muslims should celebrate their own Islamic festivals instead of celebrating the festivals of non-Muslims.

Nausheen Ansari

Mash’al-E-Raah

Mumbai

Friday, 30 December 2022

نئے سال کا جشن اور نوجوان نسل کا طرز عمل

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نئے سال کا جشن منانا اسلام کے منافی ہے۔ اسلام سادہ مذہب ہے، سادگی کو پسند کرتا ہے، خرافات،لغویات اور بے جا حرکتوں کیلئے اسلامی معاشرہ میں کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جو اللہ کی عبادت وفرمانبرداری اور خلق خدا کی خدمت پر مبنی ہو۔ ماہ جنوری سے شروع ہونے والے سال کے اختتام پر آخر اس قدر خوشی کیوں؟اس کو منانے پر جنون جیسی کیفیت کی کیا وجہ ہے؟ کیا یہ طریقہ کارمسلمانوں کے لئے مناسب ہے؟ کیا اس نئے سال سے مسلمانوں کا کچھ لینا دینا ہے۔ پھر آج کیوں مسلمان اس کام کو انجام دے رہے ہیں؟ آخر یہ کس نے ایجاد کیا؟ کو ن سی قوم نئے سال کا جشن مناتی ہے؟ کیوں مناتی ہے؟ اور اس وقت مسلمانوں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ 

در اصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلی آرہی ہے، ان کے عقیدے کے مطابق 25/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہ کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔نئے سال کے جشن میں ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے، اور 13/ دسمبر کو لوگ رات دیر تک جاگتے رہتے ہیں اور نیا سال آنے کی خوشی میں جشن کی تیاری کرتے ہیں۔ جیسے ہی گھڑی کی سوئی 12/ بجاتی ہے لوگ گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ تفریحی مقامات پر چہل قدمی شروع ہوجاتی ہے، رقص و سرور کے پروگرام ہوتے ہیں۔ اس طرح آنے والے سال کو گویا خوش آمدید کہا جاتا ہے اور جانے والے سال کو رخصت کیا جاتا ہے۔ 

آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور 31 دسمبر کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے جب کہ یہ عیسائیوں کاتیوہار ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہو گیا“۔ مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے۔پھر کیوں مسلمان اس نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے؟

اسلام ہمیں قطعاً اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ نئے سال پر یا کسی بھی موقع پر آپے سے باہر ہوجائیں، پٹاخیں پھوڑیں، آتش بازیاں کریں، رقص وسرور کی محفلیں سجائیں، مختلف پروگراموں میں حصہ لیں۔ تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ نئے سال کو منانے کے لئے جو طریقے اختیار کئے جارہے ہیں وہ معاشرہ کے لئے انتہائی مہلک ہیں۔نوجوان نسل پر اس کے منفی اثرات پڑرہے ہیں،عریانیت وفحاشیت بڑھتی جارہی ہے۔ ناچ گانوں کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں جن میں نوجوان نسل بڑی تعداد میں شرکت کرتی ہے تو دوسری جانب ایسے مختلف حلقوں کو نمایاں کیا جا تا ہے جو سراسر اسلام کے بنیادی عقائد پر تبادلہئ خیال کرتے ہیں اس مقصد کے لیے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کوبے جا استعمال کیا جاتا ہے جن میں نئی نسل خاص طور پر ان کا ہدف ہوتی ہے۔

سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کس طرح سے نسل نوکو ان تمام چیزوں سے بچایا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم سوسائٹیوں، محلوں او رمسلم آبادیوں کو اس طرح کی تقریبات سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔؟ اس سلسلہ میں ملت کے ذمہ داروحساس افراد اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔اگر امت مسلمہ کو نئے سال جیسی مغربی تقریبات کے دور میں تنائج سے آگاہ نہ کیا گیا اور ان کو ان کے حال پر چھوڑدیا گیا تو مسلم معاشرہ میں ایسی فحش حرکات ولغوباتیں در آئیں گی جس سے معاشرہ میں بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔

اس کے علاوہ ہمیں ضرورت ہے اپنامحاسبہ کرنے کی ہمارے نامہئ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں۔ کیا ہم نے امسال اپنے نامہئ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اللہ کی اطاعت میں کوئی کمی تو نہیں آئی؟ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی یا نافرمانی؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کئے یا نہیں؟ اس کے علاوہ ہمیں عبادات، معاملات، حلال و حرام، اعمال کی ادائیگی کے میدان میں بھی اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؟۔ اگرگز رے ہوئے سال کی طرف مڑ کردیکھیں تو اس سال میں ہم نے خوشیاں کم اور غم زیادہ اٹھائے ہیں۔کتنے سانحات ہوئے؟اور کیا جو لوگ جو نئے سال کا جشن منا رہے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ اس سال میں تم نے ایسا کیا پا لیا ہے جس کے لیے جشن منا رہے ہو؟ظلم و جبر کے اس ماحول میں بھلا تم جشن کیسے مناسکتے ہو؟ 

جشن اور خوشی کا ماحول تو اس وقت بنتا ہے جب ہر طرف خوشحالی اور امن و امان ہو۔ جب کہ مسلمان اقتصادی، سماجی اور تعلیمی اعتبار سے کمزروسے کمزور ہوتے جارہے ہیں اور سیاستدان اپنی کرسی بچانے یا اپنی کرسی بنانے کے چکر میں عوام کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں۔ بھلا کیسے نئے سال کا جشن منا سکتے ہو؟ مسلمانو! اب بیدار ہوجاؤ۔ کب تک غیر مسلموں کی غلامی میں رہو گے؟ یہ تہوار ہر لحاظ سے غیر شرعی ہے۔ اس کا ہماری ثقافت اور ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہماری اقدار کے بھی منافی ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی سنت کو پورا کرتے ہوئے مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تہوار منانے کی بجائے اپنے اسلامی تہواروں کو منانا چاہیے۔ 

نوشین انصاری 

ممبئی


Thursday, 22 December 2022

What are the educational opportunities available internationally for Muslim women?

Today, it has become clear to the whole world that the number of Muslim women is the highest in educational backwardness, while more than 500 verses in the Holy Quran are related to education, in which the importance and usefulness of education have been clarified in clear words. Then what are the reasons that Muslim women are not awakening towards education.

The equal rights of women have been given in every religion but non-implementation is a cause of concern. In the religion of Islam, there are strict instructions regarding the rights of women and there are many hadiths to make them educated. Despite all this, Muslim women are the most marginalized in the field of education today. While educating a man makes him a hero, when a woman is educated, she makes two families educated. Today there is a need to make their education a mission so that they can form a better society by being educated.

At the global and national level, the twentieth century was a very important century in many respects. Where significant changes took place in the world's history and geography, society and culture, science and literature, there was also awareness about the better position and status of women in the society. There was a lot of awakening and as a result of various initiatives, the centuries-long low status of women improved to some extent. When they got the opportunities, their existence, lost and distorted in the historical periods, as an educated, conscious and empowered individual began to show their contributions and abilities in different fields of life. Although this situation is all It is not uniform across countries, but in most countries including India, a large proportion of female population is still suffering from illiteracy, backwardness, poverty and numerous gender problems. In the context of the changing status of women, it is important to know that

What is the position of Indian Muslim women today?

What kind of problems are faced by Muslim women in India?

Are Indian Muslim women able to face contemporary challenges and join the mainstream of development?

Internationally, if women are assessed, two-thirds of the world's work is carried out by women. They are always affected by economic activities, they have less opportunities and the other work they do is not counted. If the education of women is evaluated, the education of women is very less compared to men. 2001 census. According to the census, the education rate in India is 64.8%, of which 75.3% is male and 53.7% is female. There is a gender disparity in literacy rates across all provinces in India.

India is a developing country. This country has a special historical, political, social, religious and cultural identity. The total population of this country consists of people of different religions, languages and cultures. About fourteen percent of the country's population consists of Muslims. The Muslim nation has the status of the largest minority in this country. According to the Constitution of India, Muslims also have the same equal opportunities and rights for development as Indian citizens as the other classes of this country have. . Despite this, the results of various reports published on the situation of Muslims show that Muslims are lagging behind in all spheres of life compared to people of other religions and are included in the mainstream of development. Are not. A large number of Muslims are unable to keep pace with the changing standards and demands of the present age. They are facing many challenges at educational, social, economic, cultural and political levels. Compared to the overall situation of Muslims, the situation of women is even worse and backward. Muslim women are far from the target of development. Although various measures were taken for the education and development of girls and women after the independence of the country Their effects could not be set on the women of all sections of the country, especially the Muslim women were far behind in the field of education and development.

Since Muslim women are affected by numerous family problems and domestic violence, it is necessary for them to become aware of their Shariah and constitutional rights as a conscious individual. There is also a strong need for women to have access to the government facilities and resources available for education, development and empowerment and they can use them. To achieve this goal, greater awareness at the neighborhood level. Awareness programs should be organized. Instead of holding the government or religious and social organizations responsible, more and more men and women of Muslim society should now come into action and adopt various measures so that Muslim women Educational, social, economic and health condition can be improved and their distorted image in Indian society can be improved. To enable them to exercise their Shari'a, constitutional and legal rights, to live a dignified life in India as educated, skilled, capable, conscious and empowered social persons and to meet changing demands and new demands. Be able to face challenges.

Nausheen Ansari

Mumbai

مسلم خواتین کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعلیمی مواقع کیا ہیں؟

 آج یہ بات پوری دنیا پر عیاں ہوچکی ہے کہ تعلیمی پسماندگی میں مسلم خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ قرآن کریم میں 500 سے زائد آیتیں تعلیم سے متعلق ہیں، جن میں تعلیم کی اہمیت و افادیت کو صاف الفاظ میں واضح کیا گیا ہے۔ پھر کیا وجوہات ہیں جو مسلم خواتین تعلیم کے تئیں بیدار نہیں ہورہی ہیں۔

عورتوں کے برابری کے حقوق ہر مذہب میں دئے گئے ہیں لیکن اس پر عمل نہ ہونا باعث تشویش ہے۔ مذہب اسلام میں عورتوں کے حقوق کے تئیں سخت ہدایات موجود ہیں اور ان کو تعلیم یافتہ بنانے کی کئی احادیث ملتی ہیں۔ ان سب کے باوجود آج مسلم خواتین ہی تعلیم کے میدان میں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ جہاں ایک آدمی کو تعلیم یافتہ بنانے سے وہ صاحب کردار بنتا ہے وہیں ایک عورت جب تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو دو خاندانوں کو تعلیم یافتہ بناتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انکی تعلیم کو ایک مشن بنایا جائے تاکہ وہ تعلیم یافتہ ہوکر ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کرسکیں۔

عالمی و قومی سطح پر بیسویں صدی کئی اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل صدی رہی ۔جہاں اس صدی میں دنیا کی تاریخ وجغرافیہ ، معاشرت و تہذیب ،علم وادب میں نمایاں تبدیلیاںرونما ہوئیں وہیں سماج میں خواتین کے بہتر مقام و مرتبہ کو لے کر شعور بھی کافی بیدار ہوا اورمختلف اقدامات کے نتیجہ میں کسی حد تک صدیوں سے چلی آرہی خواتین کی پست حیثیت میں بہتری آئی۔ جب انہیں مواقع ملے تو تاریخی ادوار میں گم شدہ ا ور مسخ شدہ ان کا وجودتعلیم یافتہ،با شعور و با اختیار فرد کی حیثیت سے مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی حصّہ داریوں اور صلاحیتوں کا لو ہا منوانے لگا۔اگرچہ کہ یہ صورتِ حال تمام ممالک میں یکساں نہیں ہے بلکہ بیشتر ممالک بشمول ہندوستان میں خواتین کی آبادی کی بڑی شرح آج بھی ناخواندگی، پسماندگی ، غربت اور بے شمار صنفی مسائل کا شکار ہیں۔ ازماضی تا حال خواتین کی حیثیت کے اس بدلتے مو قف اور عصرِ حاضر کے تناظر میں یہ جا ننا مقصد ہے کہ

عصرِ حاضر میں ہندوستانی مسلم خواتین اپنا کیا مو قف رکھتی ہیں ؟

ہندوستان میں مسلم خواتین کس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں ؟

کیا ہندوستانی مسلم خواتین عصری تحدیات کا مقابلہ کرنے اور ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے قابل ہیں؟

بین الاقوامی سطح پر اگر خواتین کا جائزہ لیا جائے تو دنیا میں دو تہائی کام کا بوجھ اٹھاتی ہیں۔ وہ معاشی سرگرمیوں سے ہمیشہ متاثر ہوتی ہیں، ان کے پاس مواقع کم ہوتے ہیں اور دوسرے جو وہ کام کرتی ہیں وہ شمار نہیں کیاجاتا۔اگر تعلیم نسواں کا جائزہ لیا جائے تو مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعلیم بہت کم ہے۔2001 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں تعلیم کی شرح64.8% اس میں مرد75.3%اور خواتین کا تعلیمی فیصد53.7%ہے۔ ہندوستان کے تمام صوبوں میں شرح خواندگی میں جنسی تفریق موجود ہے.

ہندوستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اس ملک کی ایک خاص تاریخی، سیاسی ،سماجی ،مذہبی و تہذبی شناخت رہی ہے۔اس ملک کی کل آبادی مختلف مذاہب اور زبان وتہذیب کے حامل افراد پر مشتمل ہے۔ملک کی آبادی کا تقریباً چودہ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔کثیر آبادی والے اس ملک میںمسلمان قوم کو سب سے بڑی اقلیت کا درجہ حا صل ہے ۔دستورِ ہند کے مطابق مسلمانوں کو بھی بہ حیثیت ہندوستانی شہری ترقی کے اتنے ہی مساویانہ مواقع اور حقوق حا صل ہیں جتنے کہ اس ملک کے د یگر طبقات کو حا صل ہیں۔ با وجود اس کے مسلمانو ں کے صورت حال کے متعلق شائع شد ہ مختلف رپورٹس کے نتا ئج ظا ہر کر تے ہیں کہ مسلمان تمام شعبہ ہا ئے حیات میں دیگر مذاہب کے افراد کے مقابلے میں پچھڑے ہو ئے ہیں اور ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل نہیں ہیں۔ مسلمان طبقہ کی بڑی تعداد عصرِ حاضرکے بدلتے معیارات اور تقاضوں کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ انھیں تعلیمی، سماجی،معاشی ،ثقافتی اور سیاسی سطح پر کئی تحدیات کا سامنا ہے ۔ مسلمانوں کی مجموعی صورتحال کے مقابلہ میں خواتین کا صورت حال اور بھی ابتر اور پسماندہ ہے۔مسلم خواتین ترقی کے نشانہ سے بہت دور ہیں۔اگر چہ کہ ملک کی آزادی کے بعد لڑکیوں و خواتین کی تعلیم وترقی کے لیے گوناگوں اقدامات اختیار کیے گئے لیکن ان کے اثرات ملک کے تمام طبقات کی خواتین پر مرتب نہیں ہو سکے ،بالخصوص مسلم خواتین تعلیم وترقی کے میدان میں کافی پچھڑ گئیں۔

مسلم خواتین چونکہ بے شمار عائلی مسائل اور گھریلو تشدد سے متا ثر ہیں اسی لیے ان کے لیے ایک با شعور فرد کی حیثیت سے اپنے شرعی ودستوری حقوق سے واقفیت حاصل کر نالازم ہوگیا ہے ۔جس کے استعمال سے وہ اپنی نجی وسماجی زندگی باوقار انداز سے گذار سکتی ہیں۔اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ خواتین کی تعلیم، ترقی وبااختیاری کے لیے دستیاب سرکاری سہولتوں او روسائل تک ان کی پہنچ ہو اور وہ استفادہ کر پائیں۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے محلہ واری سطح پر زیادہ سے زیادہ شعور بیداری پروگرامس منعقد کیے جائیں۔ان مقاصد کی تکمیل کے لیے حکومت یا مذہبی وسماجی تنظیموں کو ذمہ دار ٹہرانے کے بجائے مسلم معاشرے کے زیادہ سے زیادہ مرد وخواتین کو اب میدانِ عمل میں آنااور مختلف اقدامات کو اپنانا نا گزیر ہو گیا ہے تاکہ مسلم خواتین کی تعلیمی ،سماجی ،معاشی وصحتی پست حالت کو بہتر بنایا جا سکے اور ہندوستانی سماج میں ان کی مسخ شدہ شبیہ کو بہتر بنایا جا سکے۔ انہیں اس قابل بنایا جاسکے کہ وہ اپنے شرعی، دستوری و قانونی حقوق کا استعمال کرتے ہو ئے ، تعلیم یا فتہ ، ہنر مند ،با صلاحیت ،با شعورا ور با اختیار سماجی فرد کی حیثیت سے ہندوستان میں باوقار زندگی گزارسکے نیز بدلتے تقاضوں اور نئی تحدیات کا مقابلہ کر نے کی اہل ہو سکے۔

نوشین انصاری

ممبئی

Tuesday, 20 December 2022

Children are the future and capital of our nation

India has become the cradle of problems. People are facing strange problems day by day. We should not forget that BJP has come to power today because of its tireless efforts. She is constantly spreading her ideas as if she is against Muslims. It is creating obstacles in the way of education and development of Muslims. As a result, the Muslim nation is on the path of destruction step by step. Even today, the Muslim is forced to live as a backward, backward and second-class citizen. Therefore, in such an environment, it becomes necessary to pay full attention to the education and training of children because the mind of children is like a blank paper. These children are our future and total capital. In view of the fast changing conditions today, there is a need to speed up the practical steps for the best future of the children. If we are more negligent in this regard, we will have to suffer the punishments of centuries due to the mistakes of moments. So if we have the desire to create a society which is definitely the future of the Muslim nation, learn these things and act on them. Take the society to new heights. The development of a society or a nation depends on knowledge. Now the question is that the development and prosperity of the society is related to the children. Parents think that by loading books on children, by making them memorize the black letters written in these books, we have created a demand for knowledge in them. Scorecards and degrees are shown as evidence. Parents have to decide to equip their children with both contemporary and religious education. So don't let the summer vacation days go to waste at all and make it effective for the children.

Summer vacations have started and it means lots of fun and frolics. There is no end to the joy of children. In such a situation, another important responsibility has come upon the parents, how to make their children's holidays useful. Parents should keep children away from irrelevant and harmful things during holidays. Make a daily timetable and make it a habit to observe prayers. Recitation of the Holy Qur'an, tell the life situations of the Companions and Saints so that they can learn by listening and reading them. Memorize simple hadiths. Teach children how to be serious in living. Protect them from unnecessary freedom. Get rid of laziness. Teach the correct religious and Islamic beliefs so that they can be protected from the poison of bad faith. Enroll in a variety of useful short-term courses. Introduce outdoor activities. Also provide girls with tailoring, embroidery, and other vocational short-term courses. Organize summer camps for children through educational institutions and associations. All the children participating in the summer classes must be given at least a certificate so that other children are also attracted to enroll in such training camps.

The thinking of some parents is also strange who keep the children confused only in studies and do not let them know about other things in the world. The damage is done to him in practical life. Parents should expose their children to both curricular and extra-curricular activities during vacations, let them continue their hobbies like sports, tourism, poetry, painting along with studies, this will increase their creativity and they will be useful in practical life. On the contrary, children who study only are like machines, all their attention is focused on getting maximum marks in one way or another. In this way children get high marks but their personality does not develop. While extra-curricular activities play an important role in developing self-confidence and personality in children.

Sometimes it is seen that no matter how intelligent children are, they lack confidence and cannot express themselves properly, which does not bring out their hidden abilities. Give them opportunities to interact with other children through extracurricular activities. Children who spend time together learn a lot from each other because nature has placed some quality in each child. Motivation is essential and if given an opportunity to pursue extra-curricular interests within a proper range, the child's hidden potential can be brought out. During training, it should be kept in mind that if the child does something good, to encourage him, he should not hesitate to praise him. Passion and passion should arise in his heart. A child is like soft wet clay, the way we treat it, the shape it will take. When the child makes a mistake, explain it instead of hitting and scolding. If the child makes the same mistake again and again, make it clear in his heart that if he does it again, he will be treated harshly, even then there is no need to reprimand him, make him feel the mistake with advice and love. Remember that too much hardness and too much softness can sometimes cause distortion. Parents should make the upbringing of children easy and natural by changing their attitudes, tones and methods along with training of children.

Summer vacations are a blessing for children if these vacations are used properly, their physical and mental development can be increased as the child spends his early hours with his home and parents. The role of parents is very fundamental. They should make children recognize good and bad characters as well as make them familiar with everyday situations. The government that is imposed on us today is due to our incompetence. Therefore, pay special attention to the education and training of children. As long as we sit on our hands, these so-called political shops of the government will continue to operate, so save yourself from these beasts and save the children too. By developing children in both favorable and unfavorable environments, develop self-confidence, self-esteem in them so that they can become active members of society. This will make their role reliable and strong in the development of the country. Remember that children are the builders of the nation in the future, if they are given proper training, it means that we have created a foundation for a good and strong society. The right foundation has been laid. An ideal society comes into being only through good training of children, because only a good plant can become a tree in the future.

Nausheen Ansari

Mumbai

Sunday, 18 December 2022

خواتین کے لئے مشعل ۔ راہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے. کیسے؟ یا کمزور خواتین اپنے آپ میں خود اعتمادی اور خود کفالتی کا جذبہ کیسے پیدا کریں؟؟

خواتین کا دائرہ عمل ان کے گھر کی چار دیواری تک ہی محدود نہیں۔آج کی عورت اور باہر دونوں جگہ کامیابی سے آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کی عورت خود اعتماد ہے وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ گھر ہو یا باہر آگے بڑھنے کیلئے خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ آج کی غیر یقینی اور ہنگامہ بھری زندگی میں کوئی بھی غیر متوقع صورتحال سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ زندگی داؤ پیچ سے نبرد آزما ہونے کیلئے خود اعتمادی معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔گھر میں رہنے والی عورتوں میں جب تک خود اعتمادی نہیں ہو گی تب تک اس گھر کے افراد خاص کر بچے خود کو بھی غیر محفوظ محسوس کریں گے۔کیونکہ بچوں کی تربیت میں ایک پُراعتماد ماں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے اس کے علاوہ آج کل گھریلو زندگی کے ساتھ خواتین ملازمت بھی کر رہی ہیں۔

تاریخ گواہ رہی ہے کہ جس دور میں عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ خود اعتمادی سے کام کیا ہے۔وہاں عزم و حوصلے اور طاقت و بہادری کے ناقابل فراموش کارنامے انجام دیئے ہیں۔ خواتین میں خود اعتمادی کے حصول کا انحصار ان کے خاندانی پس منظر اور گھریلو تربیت پر بھی ہوتا ہے ایسے میں تعلیم انہیں زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے کا سلیقہ دیتی ہے۔اور حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت و برداشت بڑھا دیتی ہے لیکن آج بھی ایسی بہت سی خواتین ہیں خاص کر گھریلو خواتین جو اپنے فیصلوں اور کاموں میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں اس کے لئے سب سے ضروری ہے کہ وہ خود اپنے اندر کا حوصلہ بڑھائیں۔

اس کیلئے چند مفید ہدایات مندرجہ ذیل ہیں۔

اپنی شخصیت میں خود اعتمادی لانے کیلئے کسی معروف باوقار شخصیت کو اپنا نمونہ تسلیم کریں اور اس کی زندگی کے تجربات سے سبق سیکھیں۔اس سے مثبت تبدیلی آئے گی،خود اعتمادی اور ہمت کا جذبہ پروان چڑھے گا۔

ہمیشہ اپنی مثبت سوچ رکھنے کی کوشش کریں۔اپنی ناکامیوں کو نظر انداز کرکے کامیاب صلاحیتوں کو اجاگر کریں مثبت سوچ سے اچھا بننے کی لگن پیدا ہو گی۔

اپنے حالات،خیالات،نظریات پر نظر رکھتے ہوئے مستقبل کے حالات کے لئے خود کو تیار رکھیں یوں ایک دن خود اعتمادی خود شخصیت کا حصہ بن جائے گی۔

کسی سے بات کرتے ہوئے اس سے نظر ملا کر بات کریں اور اپنی آواز کو واضح اور صاف الفاظ استعمال کریں اور ماحول کے مطابق آواز کم یا زیادہ رکھیں۔

نفسیاتی مسائل بھی خود اعتمادی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اس لئے خود کو اعصابی طور پر خاص طور پر مضبوط رکھیں۔

اگر کہیں کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا حد سے زیادہ اثر نہ لیں۔چونکہ انسان خطا کا پتلا ہے چنانچہ خود پر اعتماد رکھتے ہوئے اس غلطی سے سیکھیں تاکہ اگلی دفعہ اس ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

جو خواتین خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہوتی ہیں وہ ناصرف انفرادی طور پر اپنی زندگی میں بلکہ اجتماعی طور پر ملک کی ترقی میں بھی اہم سنگ میل ثابت ہوتی ہیں۔

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک مثالی نہیں بن سکتا جب تک وہاں کی خواتین میں خود اعتمادی،خود کفالتی اور خود انحصاری کا احساس نہ ہو۔آج کی خواتین نہ صرف گھر کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں بلکہ بہت ساری مختلف شعبوں میں بھی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔جس کیلئے خود اعتمادی نہایت ضروری ہے جو اپنے آپ پر اور اپنی صلاحیتوں پر یقین کرکے کوشش محنت سے حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ اگر وہ خود اعتمادی سے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گی تو وہ ناصرف وہ اپنی زندگی سنوار لیں گی بلکہ دوسرے آنے والوں کیلئے بھی مشعل راہ ثابت ہوں گی۔

نوشین انصاری

ممبئی

A Mashal-E-Raah for women. The path is the backbone. How? Or weak women how to develop self-confidence and self-sufficiency in themselves??


Women's sphere of action is not limited to the four walls of their home. Today's woman is seen to be successful both outside and in. This is because today's woman is self-confident, she knows very well that the home should be. Or need self-confidence to move forward. In today's uncertain and turbulent life, one may face unexpected situations. Self-confidence is helpful to deal with life's challenges. Until the women living in the house do not have self-confidence, then the members of this house, especially the children, will also feel insecure. Because the children A confident mother plays a very important role in the upbringing of women.

History has witnessed that in the era when women have worked alongside men with self-confidence, they have performed unforgettable feats of determination, courage, strength and bravery. Achieving self-confidence in women also depends on their family background and home training, in this case, education gives them the skills to solve the problems that occur in life and increases the strength and endurance to cope with the situations. But even today, there are many women, especially housewives, who become hesitant in their decisions and actions, so it is most important that they increase their inner courage.

Following are some useful guidelines for this.

To bring self-confidence in your personality, accept a well-known and respected personality as your role model and learn from his life experiences. This will bring positive change, develop self-confidence and courage.

Always try to keep your positive thinking. Ignore your failures and highlight your successful abilities.

Prepare yourself for future situations by keeping an eye on your situations, thoughts, ideas, so that one day self-confidence will become a part of your personality.

When talking to someone, make eye contact with them and use your voice clearly and clearly and keep your voice low or high according to the environment.

Psychological problems are also a hindrance to self-esteem, so keep yourself especially mentally strong.

If there is a mistake, do not overdo it. As human beings are prone to mistakes, learn from this mistake with self-confidence so that you do not have to face this failure next time.

Women who are rich in self-confidence are important milestones not only in their individual lives but also in the development of the country as a whole.

No society can become ideal unless its women have a sense of self-confidence, self-sufficiency and self-reliance. Today's women are not only shouldering the responsibilities of the home but also in many different fields. For which self-confidence is very important, which can be achieved by believing in oneself and one's abilities, because if she demonstrates her abilities with self-confidence, she will not only improve her life. Rather, it will prove to be a beacon for other visitors.


Nausheen Ansari

Mumbai

Protection of Shari'ah and Responsibility of Muslim Women

 Ours and every Muslim's belief is that the system created by Allah Almighty is for the doomsday, in which there is no room for modification. But the question is that with this belief, do we really follow religion and Islam? For the last few years, the Muslims of India are responsible for two or four of the problems that they themselves are responsible for. has been and for which the main Muslim parties seem to be fighting, it is really the need of the hour.

The problem has started with triple talaq and has reached the Uniform Civil Code. It is definitely unsettling, but it has certainly benefited the Muslim people by showing unity in the movement and parties. Security rallies are being held, the government is being pressured to avoid interference in Sharia law. The situation and problems that the Muslims and minorities of the country are facing at the moment, they themselves are at fault somewhere.

When Muslims themselves take their domestic disputes to the courts instead of solving them in the light of Quran and Sharia and accepting the decision of Quran and Sharia. The recent triple talaq problem has also arisen due to the non-Sharia practices of Muslims. Ishrat Jahan and Saira Bano or a few other women knocked on the door of the court and requested to declare the triple talaq null and void because of the illegal behavior of their husbands. It means triple talaq. It is not a matter of concern that Muslims go around the courts instead of approaching the Islamic courts. Just look at the police stations, you will see a crowd of burqa-clad women everywhere, when a conflict arises between two Muslims. Or if there is disagreement between husband and wife, aren't they both bound to solve their problem according to Islamic law? Isn't every issue of Muslims connected with Quran and Sunnah? Divorce cases are very few among Muslims, it is not a problem but it is being made a problem under a well-thought-out conspiracy. It is being unnecessarily exaggerated in the media. Triple talaq bill is a problem for children and women. When the husband is sent to jail, who will be responsible for his maintenance? This bill is completely flawed and weak and there are many contradictions in this bill, this bill is unacceptable for Muslims.

The anti-triple talaq bill passed by the government, which has been tabled in Parliament, is against the Supreme Court's ruling as the Supreme Court has ruled that simultaneous triple talaq does not constitute divorce. But the law passed by the central government is clearly against the decision of the Supreme Court. In this, in case of giving triple talaq, a punishment of up to three years has been proposed for the husband and during this period, non-maintenance has also been kept on the husband. The question arises that when the divorce did not take place in the case of triple talaq, then why the punishment? And when the divorce did not take place, what is the justification for making the husband liable to pay non-maintenance? It is said that Muslim women will be given freedom from problems.

If the government really sympathizes with Muslim women and wants to act according to the Supreme Court's decision, it should have taken a step in consultation with the Muslim Personal Law Board, Jamiat Ulema Hind and other leading organizations and scholars. The triple talaq bill was hurriedly brought in the parliament without asking the scholars. Those for whom the law is being made are not even being asked what their opinion is. In the press and media, such so-called apostate women are being exposed and false propaganda is being done. The fact is that the government has neither anything to do with triple talaq nor does it have any sympathy for Muslim women. She is just following the policy of vote bank and that is she wants to please the majority Hindu population of the country by making laws against Muslims. It is being told by the government that Muslim women are oppressed and Muslim laws are very cruel and it is very important to relieve Muslim women from this, all this is actually false propaganda. This is the government's attempt to make this country Hindu Rashtra and erase the identity of Muslims from India. The government is more interested in interfering with the faith and beliefs of Muslims and the principles of Sharia, destroying the family system of Muslims than in the education and development of Muslims. The government wants to bring the Muslim society and families to the brink of destruction. It is happening for the first time in the history of independent India that a civil contract is being made a criminal act. We Muslim women will never allow these evil intentions of the government to succeed. In this country, the protection of Sharia is the responsibility of all of us and it is also a duty of faith. In order to prevent interference in the Sharia, it is necessary that the Muslims unite against any such conspiracy, but it is not enough to unite to protect the beauty and dignity of the Sharia, but it is necessary that all Muslims align themselves with the requirements of the Sharia. And for this, it is necessary that the knowledgeable and conscious class of Muslims come forward, and make the ideal methods of practicing Sharia common among Muslims.

Our Muslim Personal Law Board is currently the watchdog of the capital nation in the country, this institution was established for the protection of Shariat, it is our responsibility to be the voice of the Muslim Personal Law Board. It is the responsibility of us Muslim women to protest democratically in support of Sharia and against the triple talaq bill. Sharia is our choice, our pride, not forced. We will protect this blessing of Islam till the end. We are all with the Muslim Personal Law Board and oppose undue interference in religion and Shari'ah and are determined to keep Islamic orders in our internal and external lives. Strengthen!

Nausheen Ansari

Mumbai

تحفظ شریعت اور مسلم خواتین کی ذمہ داری

  ہمارا اور ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام قیامت تک کے لیے ہے، جس میں ترمیم و اصلاح کی ہرگز گنجائش نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس اعتقاد کے ساتھ کیا ہم واقعی دین و اسلام پر عمل بھی کرتے ہیں۔۔؟ گذشتہ چند سالوں سے مسلمانانِ ہند جن مسائل سے دو چار ہیں، ان کے ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہیں۔آج ہمارے دینی و معاشرتی مسائل میں جو دخل اندازی کی کوشش کی جا رہی ہے، جسے یونیفارم سول کوڈ کے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے اور جس کے لیے اہم مسلم جماعتیں بر سرِ پیکار نظر آ رہی ہیں، یہ واقعی وقت کی ضرورت ہے۔

مسئلہ طلاقِ ثلاثہ سے شروع ہو کر یونیفارم سول کوڈ تک جا پہنچا ہے، اس سے بے چینی تو یقینی ہے لیکن اس کا یہ فایدہ ضرور ہوا کہ مسلم عوام میں تحریک اور جماعتوں میں جوڑ نظر آنے لگا۔حال یہ ہے کہ جگہ جگہ شریعت کی حفاظت میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، حکومت سے شریعت میں مداخلت سے گریز کرنے پر دباؤڈالا جا رہا۔ جن حالات و مسائل کا اس وقت ملک کے مسلمانوں و اقلیتوں کو سامنا ہے، اس میں خاطی کہیں نہ کہیں وہ خود بھی ہیں۔ 



جب مسلمان خود اپنے گھریلو تنازعات کو قرآن وشریعت کی روشنی میں حل کرنے اور قرآن وشریعت کا فیصلہ قبول کرنے کے بجائے عدالتوں میں لے جاتے ہیں۔ حالیہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ بھی مسلمانوں کے غیر شرعی طرز عمل کے سبب پیدا ہواہے۔ عشرت جہاں اور سائرہ بانو یا دیگر چند خواتین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دینے کی جو درخواست کی ہے اس کا اصل محرک ان کے شوہروں کا غیر شرعی طرز عمل تھا، کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس وقت عام مسلمان طلاق کا مطلب تین طلاق ہی سمجھتا ہے۔ یہ بات غور و فکر کی نہیں کہ مسلمان اسلامی دارالقضاؤں سے رجوع ہونے کے بجائے عدالتوں کے چکر کاٹتے ہیں۔ذرا پولیس اسٹیشنوں کا جائزہ لیجئے، ہر جگہ برقع پوش خواتین کی بھیڑ نظر آئے گی، جب دو مسلمانوں کے درمیان آپس میں تنازع پیدا ہوجائے یا میاں بیوی میں ناچاقی ہو تو کیا وہ دونوں اسلامی شریعت کے مطابق اپنے مسئلہ کو حل کرنے کے پابند نہیں ہیں؟ کیا مسلمانوں کا ہر معاملہ قرآن وسنت سے جڑا ہوا نہیں ہے؟ طلاق کے واقعات مسلمانوں میں بہت کم ہیں،یہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں بلکہ اس کو سوچی سمجھی سازش کے تحت مسئلہ بنایا جارہا ہے۔میڈیا میں اسے غیر ضروری بڑھا چڑھا کر اچھالا جارہا ہے۔تین طلاق بل بچوں او ر عورتوں کیلئے ایک مصیبت ہے۔شوہر جب جیل چلاجائیگا تو انکے نان و نفقہ کا ذمہ دار کون ہوگا۔ یہ بل سراسر ناقص اور کمزور ہے اور اس بل میں کئی تضاد ہے، یہ بل مسلمانوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔

حکومت کاپاس کردہ تین طلاق مخالف بل جو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے، وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ بیک وقت میں تین طلاق دینے سے طلاق واقع ہی نہیں ہوگی۔ مگر مرکزی حکومت نے جو ہ قانون منظور کیا ہے وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے صریح خلاف ہے۔ اس میں تین طلاق دینے کی صورت میں شوہر کے لئے تین سال تک کی سزا تجویز کی گئی ہے اور اس دوران نان ونفقہ بھی شوہر کے ذمے رکھا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تین طلاق دینے کی صورت میں طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تو پھر سزا کس لئے؟ اور جب طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تو شوہر کو نان ونفقہ دینے کا پابند بنانے کا کیا جواز؟ کہا تو یہ جارہا ہیکہ مسلم خواتین کو مسائل سے آزادی دلائینگے۔

اگر واقعتا حکومت کو مسلم خواتین سے ہمدردی ہے اوروہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کام کرنا چاہتی ہے تو اسے مسلم پرسنل لاء بورڈ،جمعیۃ علماء ہند اور دیگر سرکردہ تنظیموں اورعلماء کرام سے مشورہ کرکے ہی کوئی قدم اٹھانا چاہئے تھا۔ بغیر علماء کرام سے پوچھے عجلت میں پارلیمنٹ میں تین طلاق بل کو لایا گیا۔ جس کیلئے قانون بنایاجارہا ہے ان سے پوچھا بھی نہیں جارہا ہیکہ ان کی رائے کیا ہے۔ پریس و میڈیامیں ایسی نام نہاد مرتد خواتین کو لاکرہوّا کھڑاکرکے جھوٹے پروپگنڈے کئے جارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو نہ تو تین طلاق سے کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی مسلم خواتین سے اسے کوئی ہمدردی ہے۔ وہ بس ووٹ بینک کی پالیسی پر عمل کررہی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف قانون بناکرملک کی اکثریتی ہندو آبادی کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ بتایا جارہا ہے کہ مسلم عورت کتنی مظلوم ہے اور مسلم قوانین بہت ظالم ہیں مسلم عورت کو اس سے راحت دلانا بہت ضروری ہے، یہ سب دراصل جھوٹا پروپگنڈہ ہے۔ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ اس ملک کو ہندوراشٹر بنادے اور مسلمانوں کے تشخص کو ہندوستان سے مٹادے۔ حکومت کو مسلمانوں کی تعلیم و ترقی سے زیادہ مسلمانوں کے ایمان و عقائد اور اصول شریعت میں مداخلت کرنے،مسلمانوں کے خاندانی نظام کو تہس نہس کرنے میں دلچسپی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ مسلم سماج اور خاندانوں کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچادیاجائے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ ایک سول کنٹراکٹ کو کریمنل ایکٹ بنایا جارہا ہے۔ ہم مسلمانانِ خواتین حکومت کے ان ناپاک عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس ملک میں شریعت کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے اور ایمانی فریضہ بھی ہے۔ شریعت میں مداخلت روکنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان ایسی ہر سازش کے خلاف متحد ہوجائیں، لیکن شریعت کے حسن اور وقار کی حفاظت کے لئے متحد ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سارے مسلمان خود کو شریعت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ اور اس کے لئے لازم ہے کہ مسلمانوں کا باعلم اور باشعور طبقہ سامنے آئے، اور شریعت پر عمل کے مثالی طریقوں کو مسلمانوں میں عام کرے۔ 

ہمارا مسلم پرسنل لا بورڈ اس وقت ملک میں سرمایہ ملت کے نگہبان کی حیثیت رکھتا ہے، اس ادارہ کا قیام ہی تحفظ شریعت کی خاطر ہواہے، ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مسلم پرسنل لا بورڈ کی ا ٓواز بنیں۔ ہم مسلم خواتین کی ذمہ داری ہیکہ شریعت کی تائید میں اور تین طلاق بل کی مخالفت میں جمہوری طریقہ پر احتجاج کریں۔شریعت ہماری پسند ہے، ہمارا فخر ہے، مجبور ی نہیں۔اسلام کی اس نعمت کا ہم آخری دم تک حفاظت کریں گے۔ ہم سب مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں اور دین و شریعت میں بے جا مداخلت کی مخالفت کرتے ہیں اور مصمّم ارادہ کرتے ہیں کہ اپنی داخلی و خارجی زندگی میں اسلامی احکامات کو سر آنکھوں پر رکھیں گے، آئیے آپ بھی ہمارے ساتھ ارادے اور عزائم مضبوط کیجیے! 

نوشین انصاری

ممبئی

How do democratic societies ensure that all voices are heard and that minorities are protected?

 India is the only country in the world which is said to be the pioneer of the most distinguished and distinct democracy, in whatever part of the world there is democracy, humanity has developed itself intellectually, practically, religiously, linguistically, civilly and culturally. But considered independent. In fact, the meaning of democracy is that there should not be any kind of restriction or abuse with the human group, there should be no discrimination of religion, language, color and race. The civilizations and societies that remained abominable have been destroyed and destroyed, therefore the secret of the development and development of the country, nation, and society lies in adopting the same behavior and attitude towards the human group, abuse and prejudice. Try to avoid it as much as possible.

India has many institutions and laws for the protection and protection of minorities but these provisions are not practically implemented. Especially in the last few years, the attacks against the minorities have increased a lot, their places of worship are also being targeted, the government also seems to be failing to protect the rights of the minorities, due to which they are subjected to various types of violence. They face prejudices, discrimination and harassment at various levels and their religious rights and identity are repeatedly undermined.

The existing institutions for the protection of minority rights have to work under government pressure and seem unable to solve the problems of minorities.

Experts question whether the minorities really have the rights that the constitution has given them. Tapan Bose, Secretary General of the Human Rights Forum, a non-governmental forum for human rights, told Voice of America that the Constitution has given rights, but governments do not act according to the Constitution.

According to him, Muslims and Christians are specifically targeted whether it is in the name of beef or now in the name of Jihad. They say that since 2014, Muslims have been entering their homes and it has been seen that they are not eating beef.

He says that today in India, the lives and property, honor, culture and religion of minorities, especially Muslims, are in danger. A senior human rights activist said that if minorities try to raise their voices against injustice, their voices are suppressed.

If the principles of justice and equality start to be implemented in our society, then it can be said with full confidence that when the foundations of human society are based on justice, tolerance and equality, nothing can hinder our progress. Respect for each other's religions, philanthropy and brotherhood will develop in Mahala Samaj. Obviously, in today's age of violence, humanity desperately needs sincere love and loyalty.


Nausheen Ansari

Mumbai

جمہوری معاشرے اس بات کو کیسے یقینی بناتے ہیں کہ تمام آوازیں سنی جائیں اور اقلیتوں کا تحفظ ہو؟

ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے ممتاز اور الگ جمہوریت کا علمبردار ہے، دنیا کے جس حصے میں بھی جمہوریت ہے، انسانیت اپنے آپ کو فکری، عملی، مذہبی، لسانی، تہذیبی اور ثقافتی طور پر خود مختار سمجھتی ہے۔ ہے دراصل جمہوریت کا مفہوم یہ بھی ہے کہ انسانی گروہ کے ساتھ کسی قسم کی پابندی یا زیادتی نہ ہو، مذہب، زبان، رنگ و نسل کی تفریق نہ کی جائے۔ جو تہذیبیں اور معاشرے مکروہ رہے وہ تباہ و برباد ہوچکے ہیں، اس لیے ملک، قوم، معاشرے کی تعمیر و ترقی کا راز انسانی گروہ کے ساتھ یکساں طرز عمل اور رویہ اپنانے، زیادتی اور تعصب میں مضمر ہے۔ اس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں۔

ہندوستان میں اقلیتوں کے تحفظ اور تحفظ کے لیے بہت سے ادارے اور قوانین موجود ہیں لیکن ان دفعات پر عملاً عمل درآمد نہیں ہوتا۔ خاص طور پر گزشتہ چند سالوں میں اقلیتوں کے خلاف حملوں میں بہت اضافہ ہوا ہے، ان کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، حکومت بھی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام نظر آتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں مختلف قسم کے تعصبات کا سامنا ہے، مختلف سطحوں پر امتیازی سلوک اور ہراساں کیا جاتا ہے اور ان کے مذہبی حقوق اور شناخت کو بار بار مجروح کیا جاتا ہے۔

اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے موجود اداروں کو حکومتی دباؤ میں کام کرنا پڑتا ہے اور وہ اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

ماہرین کا سوال ہے کہ کیا واقعی اقلیتوں کو وہ حقوق حاصل ہیں جو آئین نے انہیں دیئے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے ایک غیر سرکاری فورم ہیومن رائٹس فورم کے سیکرٹری جنرل تپن بوس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئین نے حقوق دیے ہیں، لیکن حکومتیں آئین کے مطابق کام نہیں کرتیں۔

ان کے مطابق مسلمانوں اور عیسائیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے چاہے وہ بیف کے نام پر ہو یا اب جہاد کے نام پر۔ ان کا کہنا ہے کہ 2014 سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ مسلمان ان کے گھروں میں گھس رہے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ آج ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی جان و مال، عزت، ثقافت اور مذہب خطرے میں ہے۔ انسانی حقوق کے ایک سینئر کارکن نے کہا کہ اگر اقلیتیں ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔

اگر ہمارے معاشرے میں انصاف اور مساوات کے اصول پر عمل درآمد شروع ہو جائے تو پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جب انسانی معاشرے کی بنیادیں انصاف، رواداری اور مساوات پر ہوں تو کوئی چیز ہماری ترقی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ مہالا سماج میں ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام، انسان دوستی اور بھائی چارہ پروان چڑھے گا۔ ظاہر ہے کہ آج کے تشدد کے دور میں انسانیت کو خلوص محبت اور وفاداری کی اشد ضرورت ہے۔

نوشین انصاری

ممبئی

Wednesday, 14 December 2022

How to make daughters skilled in household affairs with education?

 It is becoming a tragedy of our society that mothers are giving education to their daughters but also trying to keep them away from household affairs. Often mothers work all day in the kitchen and daughters seem to be restless. If girls are taught to do small tasks from childhood, then as they grow older, they will develop interest in working properly in the kitchen as well as in other household affairs. Mothers should accompany their daughters while working in the kitchen and start assigning small tasks to them.

Usually, mothers do not make their daughters work, thinking that they have to go to the in-laws and do all this, or that they will do everything when they have to. Is this tendency of mothers correct? Will the girl really become a key doll and start working automatically when the time comes? No! He should learn to take care of household affairs from his parents' house. When the daughter-in-law goes, later many responsibilities become a problem for her, she is surrounded by new problems every day. As a result, fights start in the house or girls prefer to stay apart, which destroys the peace of the house. In such critical situations, parents have the greatest responsibility to pay special attention to the education of their daughters along with their training. Parents should take special care that the house is run with dignity and not by degrees. A daughter is the mercy of Allah and there is prosperity in the house because of the daughter. Parents love their daughters more than their own lives, raise them with care and protect them from the cold and heat of the times, but if the daughter is not happy after marriage, the parents become helpless. For a girl, in-laws mean a new house and new people. Making room for the body is definitely a difficult task for a girl.

It has often been seen in the society that parents give their daughters good education but also try to stay away from household affairs. Today's girls are educated but very few are trained. Education and training are two separate components. In fact, parents also have some faults who are not teaching their daughters what to do if they have to go to another home. They do not teach him how to cook, nor do they teach him how to clean. Rather, they say that my daughter will read. Well, where does our daughter have time to take care of household affairs, she should only focus on her education and study with all her heart. Otherwise, what will people say that she has kept her daughter so narrow minded? Are you not familiar with the requirements of modern times? Which fashion is trending and which brand to buy is very popular among people. It is not a matter of great pride and joy, yes, but it is certainly a matter of sadness that your daughter does not know how to make tea or entertain guests. It's not that being familiar with fashion trends and new brands and buying them is a bad thing, it's a good thing, a person should be innovative and wear good clothes, but just wearing good clothes and looking good is not enough. Mothers should raise their daughters with both love and strict nurturing because “no one has seen your daughter's tomorrow.

However, if you train your daughter in such a way that she will go ahead and make wise decisions instead of getting worried, there is no doubt that she can easily make her place in the in-laws. Teach daughters to make their place in the in-laws with love Hearts are won by love and service. Respecting in-law relationships is very important. If relationships are not respected, the heart will grow bitter. Teach your mother-in-law to treat your father-in-law as your parents, and teach your husband to treat his brothers and sisters as your brothers and sisters. Friendship and love with all of them is yours. Will play an important role in making the daughter fit in the new house. Teach your husband to be tolerant and loving. Never support your daughter in fights, quarrels and wrong decisions. At the same time, teach her thrift that a thrifty girl never gives her husband a chance to complain. If the daughter is thrifty, she will manage her house thoughtfully and keep an eye on the coming time. Guide her to understand her problems and responsibilities, if she follows them, her reasonable steps will bring her respect in the in-laws.

No matter how much the girls progress in their professional life, if they are not familiar with household affairs and home economics, consider that there is a huge deficiency in their training, which parents and especially mothers realize later. Therefore, from an early age, girls should be made aware of these issues so that their married life goes happily. Make the daughters realize that after marriage, it is her greatest responsibility to take care of her house with full integrity, to play an effective role in raising her children and building a righteous society. Along with education, you should inculcate in your daughter a love of decency and skill so that the girl has to face problems after leaving her in-laws. Making a place in the in-laws is not a difficult task, it just requires love and understanding that the daughter gets from her parents in the form of training, try to train your daughter well so that after she leaves the in-laws, you too will be like your daughter. Be satisfied and calm.


Nausheen Ansari

Mumbai

کیا ہمیں بغیر ثبوت کے اسلام پر آنکھیں بند کرکے ایمان لانا چاہیے؟ ہاں یا نہ؟

 دلائل پر غور کرکے یقین کرنا چاہیے۔ اس سے ایمان مضبوط ہو گا اور وسوسے بھاگ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول کی سچائی کے بے شمار دلائل فراہم کیے ہیں جن پر غور کرنے سے انسان ایمان لا سکتا ہے اور کامیاب ہو سکتا ہے۔

ایمان کے تین درجے ہیں۔

قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سچا ایمان کامل ایمان اور کامل محبت کا مجموعہ ہے۔ مزید گہرائی میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایمان جس کی بنیاد عقیدہ پر ہے اس کے تین درجے ہیں:

 علم . عرفان . ایقان

1. ایمان کا پہلا درجہ غیب پر ایمان یا علم (جاننا) کہلاتا ہے۔ اس کا تذکرہ قرآن پاک میں اس طرح ہے:

جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں: (البقرہ، 2:3)

جو لوگ بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں وہ صرف اس لیے مانتے ہیں کہ یہ ان کے پاس ایک ایسی ہستی کے ذریعے سے آیا ہے جس نے حق کو ظاہر کیا ہے۔ لہٰذا ایمان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ غیر مرئی خدا پر صرف اس بنیاد پر یقین کیا جائے کہ اس ہستی کا علم اس صالح مخبر کے ذریعے مومن تک پہنچا ہے جس نے خود خدا کی صفات کا مشاہدہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھے بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر ایمان لانا ایمان ہے، بلکہ اس کے برعکس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے یہ مطالبہ کیا کہ:

جب تک ہم اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ وہ آپ پر یقین نہیں کریں گے۔ (البقرہ، 2:55)

یہ ایک طرح سے غیب پر ایمان کا انکار تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ مشاہدے کے تجربے سے دوچار ہوئے تو وہ روشنی کا ایک مظہر (یا حق کی آواز) بھی برداشت نہ کر سکے اور خدا کو قبول کرنے سے قاصر رہے۔ ایک پہاڑ کی طرح قادرِ مطلق۔ دیکھنے کی نیت سے جانے والے تہتر لوگ دم توڑ گئے۔

2. اس کے بعد ایمان کا دوسرا درجہ آتا ہے جسے عرفان کہتے ہیں، یعنی اپنی آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ کرنا، جس کو غیب سمجھا جاتا ہے، اور اس کی بنیاد پر اس ہستی پر اپنا ایمان قائم کرنا۔ عقیدہ کا یہ درجہ قرآن پاک میں اس طرح بیان ہوا ہے۔

اور تمہارے نفسوں میں (بہت سی نشانیاں ہیں) کیا تم نہیں دیکھتے؟ (الذاریات، 51:21)

اے خدا کے بندو، خدا کی قدرت، اس کے بے حساب انعامات اور کمالات پر یقین رکھنے والو! سوچنے اور سمجھنے اور صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لیے ہر چیز آپ کے اندر پوشیدہ ہے، خداتعالیٰ کی قدرت کے تمام حقائق اور ان کی نشانیاں آپ کی ذات میں موجود ہیں۔ ذرا اپنے اندر جھانکیں۔ اپنی انسانیت کے سیاہ پردے اٹھانے کی کوشش کریں اور حقیقت کو سمجھیں۔ پھر دیکھیں کہ یہ حقیقتیں آپ کے ذہن میں کیسے جھلکتی ہیں۔ اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم عنقریب ان کو دنیا میں بھی اور ان کے اندر بھی نشانیاں دکھائیں گے۔ یہاں تک کہ ان پر یہ ظاہر ہو جائے گا کہ یہ حقیقت ہے۔

3. ایقان ایمان کا تیسرا درجہ ہے، جس کی وضاحت کے لیے قرآن نے متعدد واقعات پیش کیے ہیں، جن میں سے ایک حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ ہے، جب وہ ایک ایسی بستی کے پاس سے گزرے جو ویران پڑی تھی۔ طویل عرصہ (یہ شہر)۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ بیت المقدس (یروشلم) کا شہر تھا۔ لیکن قرآن کریم میں اس کا تذکرہ صرف تصفیہ کے طور پر کیا گیا ہے۔ کہ:

"خدا اس کے باشندوں (یا خود بستی) کو مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟" (البقرہ، 2 : 259)

حضرت عزیر علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے قیامت خیز موتی کی قدرت سے انکار نہیں کر رہے تھے لیکن درحقیقت ان کے دل میں ویران شہر دیکھ کر یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ بستیاں جو خاک میں مل گئی ہیں، کاش! اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا۔ انہیں آباد اور زندہ دکھایا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام مراحل سے گزارا۔ قرآن پاک کی اس آیت میں کیا گیا ہے۔

خدا نے اس کی روح قبض کر لی اور اسے سو سال تک موت کی حالت میں رکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اٹھایا اور پوچھا کہ وہ کتنی دیر ٹھہرے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن یا کم نہیں بلکہ سو سال رہے ہیں۔ (البقرہ، 2 : 259)

خالق کائنات کے نزدیک مذہب صرف اور صرف اسلام ہے اور یہ نظام دین کہلانے کے لائق ہے۔

https://mashaleraah.quora.com/

Should we believe in Islam blindly without evidence? yes or no?

One should believe by considering the arguments. By this faith will be strengthened and whispers will run away. Allah has provided numerous proofs of the truth of Allah and His Messenger, by considering which a person can believe and be successful.

There are three levels of faith

It is known from Quran and Hadith that true faith is the combination of perfect faith and perfect love. Going deeper, it turns out that faith, which is based on belief, has three levels:

1. Knowledge 2. Irfan 3. Iqan

1. The first level of faith is called faith in the unseen or knowledge (knowing). It is mentioned in the Holy Qur'an as follows:

Those who believe without seeing: (Al-Baqarah, 2:3)

Those who believe without seeing, believe only because it has come to them through a being who has seen the truth revealed. Therefore, the first requirement of faith is that the invisible God should be believed only on the basis that the knowledge of this entity has reached the believer through the righteous informer who has himself observed the attributes of God. Faith is to believe in the words of the Holy Prophet ﷺ without seeing the person of God Almighty, but on the contrary, the people of Hazrat Musa (peace be upon him) demanded that:

Until we see God with our own eyes. They will not believe in you. (Al-Baqarah, 2: 55)

It was in a way a denial of faith in the unseen and the result was that when they were subjected to the experience of observation, they could not bear even a manifestation of light (or a voice of truth) and they were unable to accept God Almighty as a mountain. Seventy-seven people who went with the intention of watching died.

2. After that comes the second level of faith which is called ``Irfan'', that is, to observe the reality with one's own eyes, which is believed to be unseen, and to establish one's faith in that entity based on it. This level of belief is mentioned in the Holy Quran like this.

And in your souls (there are many signs) do you not see? (Al-Zariyat, 51:21)

O servants of God, those who believe in the power of God Almighty, His immeasurable rewards and perfections! Everything is hidden within you to think and understand and reach the right conclusions, all the facts of God Almighty's power and their signs are present in your own self. Just look inside yourself. Try to lift the dark veils of your humanity and understand the reality. Then see, how these realities are reflected in your mind. Similarly, at another place, Allah Almighty said: We will soon show them signs both in the world and in themselves. Until it will be revealed to them that this is the truth.

3. Iqan is the third level of faith, to clarify which the Qur'an has presented several incidents, one of which is the incident of Hazrat Uzair (peace be upon him), when he passed by a town that had been deserted for a long time (this town). Most of the commentators believe that it was the city of Bait al-Maqdis (Jerusalem). But it is mentioned only as a settlement in the Holy Qur'an. That:

"How will God revive its inhabitants (or the settlement itself) after death." (Al-Baqarah, 2: 259)

Hazrat Uzair (may God bless him and grant him peace) was not denying the power of the resurrection pearl of Allah, but actually seeing the deserted city in his heart created the thought that these settlements that have been found in the dust, I wish I could see with my own eyes. They should be shown to be settled and alive. On this, Allah Ta'ala took them through all the stages mentioned. It was done in this verse of Holy Quran.

God seized his soul and kept him in a state of death for a hundred years. Then he raised them up and asked how long they had stayed. They replied, "Not a day or less, but they have stayed for a hundred years." (Al-Baqarah, 2: 259)

According to the creator of the universe, religion is only Islam and only Islam, and this system is worthy of being called a religion.


https://www.quora.com/profile/Nausheen-Ansari-54

Monday, 12 December 2022

Government Sympathy with Muslim Women on Triple Talaq

 The subject that I am venturing to bring up in my writing today has become a burning issue. This topic has started to appear as a headline in the print media and electronic media. Government of India is hurting the religious sentiments of the Muslim nation by using triple talaq for its political purpose. On the issue of triple talaq that has been going on for the past several months, Prime Minister Narendra Modi said that the practice of triple talaq is unfair to Muslim women, triple talaq is an obstacle to the development of Muslim women, while his government always wants to protect the daughter. The daughter has been a supporter of education. Not only that, she mocked the Islamic law and said that Islam did not respect women. Women were left at the mercy of men. Men are allowed four marriages while women are not given any rights. That's why the Modi government wants to get rid of the problem of triple talaq and give equal rights to Muslim sisters. Wants to stop all kinds of injustice against Muslim women. It should be noted that the issue of triple talaq which Modi ji is talking about is a religious issue. Those who make fun of Islam's code of divorce should also review their laws here. What are the rights of divorcees and widows in Hinduism? Where and in which religion was the hideous and cruel ritual like sati?

My request to the Modi government, as much as it is working hard for the welfare of Muslim women against triple talaq, the government should also work hard to ensure reservation for Muslim women in government jobs. But the opposite is the case here. In Maharashtra, the previous government gave 5% reservation to Muslims in government jobs and educational institutions. On this matter, the Bombay High Court also directed to give reservation to Muslims in educational institutions, but Modi, who was relieved by the grief of Muslim women over triple talaq, The government refused to give quota to Muslims even in educational institutions. Where does the government's sympathy for Muslim reservation go?

Last year, a hearing was started in the Supreme Court on the issue of triple talaq based on the rights of Muslim women. The Supreme Court cannot take a decision on the legal status of triple talaq. It is clear that Muslim women themselves have raised their voice against triple talaq in a council. Saira Bano of Uttarakhand was the first to file an appeal in the court. After that, two divorced women from Calcutta and Jaipur also knocked on the Supreme Court's door. In this case, some Muslim women's organizations have also come forward as supporters. Apart from this, many other women have filed petitions. One of them is Ishrat, who has been divorced over the phone. I sympathize with women whose husbands divorce them for one reason or another, which was a completely wrong decision. Media is exaggerating these women on TV channels. There are countless cases where Muslim women are going around police stations and courts. As long as Muslim women continue to approach the courts regarding the injustice of divorce, such or worse judgments, comments and observations will continue to appear.

This is a huge tragedy. The image of our Islam is being destroyed, it is being auctioned in the market and we are sitting as spectators. This is a problem that needs to be solved. How many scholars and Muslim organizations are there that are ready to solve this problem? In India, there is a lot of effort to interfere with Muslim personal law under the pretext of Uniform Civil Code. However, there is an ongoing effort to remove their misunderstandings, which are propagating in the media and describing Islam as an anti-women and gender-biased religion. The movement that is being run by some organizations of Muslim women for the right of women regarding divorce, they do not have correct knowledge of Quran and Hadith. In such a situation, it becomes the duty of us Muslim women to condemn every decision of the Government of India which is trying to defame Islam.

Most women in India are in favor of following Sharia law. He believes that the courts cannot give permanent solutions. Because she knows that Islam has given Muslim women a moral position and social status in society. The rights given to women by the religion of Islam are not found in any other religion in the world. Those who are calling Sharia law as stereotyped law, they are not aware of the truth of Islam. They should know that Muslim will not tolerate interference in Sharia law at any cost. Islam has been the protector of women's rights since the first day. It is an irrefutable fact that the moral, legal and equal status given to women by Islam has not been given before by any system of knowledge and will not be given in the future.

I believe that we have to hold ourselves accountable first, criticizing the Modi government will not solve our problems. Muslim brothers should also improve their married life. Islam has given equal status to men and women. The Sharia advises that the husband should use his right with great understanding and tolerance, if there is a fault in the wife, then he should be patient with her faults, if there is any displeasure with the wife, then let her displeasure. Take him away and treat him well. Divorce is the most disliked of the halal things according to Allah Ta'ala. Therefore, I request my Muslim mothers and sisters to also strive to make their married life happy. It is better to try hard to mend and manage things rather than putting a yoke like divorce on your neck by making your home life a quarrel. If, by the will of God, any kind of situation arises, by which all the ways of reconciliation have been blocked, then our Muslim brothers should not divorce the wife just because of temporary and emergency situations. Islam has ordered separation from the wife if in matters If there is no improvement, a committee should be formed of some sensible and influential people from the family members of both, who can understand the problems of both and solve them in an easy way. On the condition that this divorce should be purely Islamic with good intentions and not for showing off to the world. Nor should divorce be misused by converting to Islam to get married again. We have to make the Government of India realize that as Muslims, Islamic teachings have a lot of influence in their lives, we have to present the right image of Islam, we have to devote all our energies and attention to dealing with anti-Islamic elements and more importantly. It is necessary for us to correct and keep our ranks correct then only then our salvation is possible in the true sense.

Nausheen Ansari

Mumbai

(This Article Published On Inquilab Newspaper, Mumbai :  2017)

طلاق ثلاثہ پر مسلم خواتین کے ساتھ حکومت کی ہمدردی

 آج جس موضوع کو میں اپنی تحریر میں لانے کی جسارت کر رہی ہوں وہ ایک سلگتا ہوا دلخراش مسئلہ بن گیا ہے۔ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا میں یہ موضوع شہ سرخی کے طور پر چھپنے لگی ہے۔ حکومت ہند طلاق ثلاثہ کو اپنے سیاسی مقصد کے تحت استعمال کر کے مسلمان قوم کے مذہبی جذبات کو مجروح کر رہی ہے۔ گزشتہ کئی مہینے سے چل رہے تین طلاق کے مسئلہ پر وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ تین طلاق کا رواج مسلم خواتین کے ساتھ نا انصافی ہے، تین طلاق مسلم خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے جب کہ ان کی حکومت ہمیشہ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کی حامی رہی ہے۔اتنا ہی نہیں انہوں نے اسلامی قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اسلام نے عورت کو عزت نہیں دی۔ عورتوں کو مردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مردوں کو چار شادی کی اجازت دی گئی ہے جبکہ عورتوں کو کوئی بھی حقوق نہیں دیا گیا۔ اس لئے مودی حکومت طلاق ثلاثہ جیسے مسئلے کو مسلم بہنوں سے نجات دلا کر انہیں برابری کے حقوق دینا چاہتی ہے۔ مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والی ہر طرح کی نا انصافی کو روکنا چاہتی ہے۔ واضح رہے کہ طلاق ثلاثہ  کا جس معاملے کو مودی جی رواج بتا رہے ہیں وہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ جو لوگ اسلام کے ضابطہئ طلاق کا مذاق اڑاتے ہیں ان کو اپنے یہاں کے قوانین کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے۔ ہندو مذھب میں طلاق یافتہ اور بیوہ کے کیا حقوق ہیں؟ ستی جیسی گھناؤنی اور ظالمانہ رسم کہاں اور کس مذھب میں تھی؟

میری درخواست ہے مودی حکومت سے، جتنی جدو جہد وہ مسلم خواتین کی بھلائی کیلئے طلاق ثلاثہ کے خلاف کررہی ہے اتنی ہی محنت حکومت کو مسلم خواتین کو سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کو یقینی بنانے کیلئے بھی کرنی چاہئے۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مہاراشٹر میں گزشتہ حکومت نے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ۵فیصد ریزرویشن دیا تھا۔اس معاملہ پر بامبے ہائی کورٹ نے بھی تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی ہدایت دی تھی لیکن طلاق ثلاثہ پر مسلم خواتین کے غم میں ہلکان ہونے والی مودی حکومت نے مسلمانوں کو تعلیمی اداروں تک میں کوٹہ دینے سے انکار کردیا۔ آخر مسلم ریزرویشن پر حکومت کی ہمدردی کہاں چلی جاتی ہے؟ 

گزشتہ سال سپریم کورٹ میں مسلم خواتین کے حقوق کو بنیاد بنا کر تین بار طلاق کہنے کے معاملے پر سماعت شروع ہوئی تھی ان میں بہت سی خواتین کا کہنا تھا کہ مرد تین طلاق کے ذریعے انہیں ستاتے ہیں جس پر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ تین بار طلاق کہنے کی قانونی حیثیت پر سپریم کورٹ فیصلہ نہیں لے سکتا۔واضح ہوکہ ایک مجلس میں تین طلاق کے خلاف خود مسلم خواتین نے آوازاٹھائی ہے۔ اتراکھنڈ کی سائرہ بانو نے سب سے پہلے کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ اس کے بعد کلکتہ اور جے پور کی دو طلاق یافتہ خواتین نے بھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔اس معاملے میں مسلم خواتین کی بعض تنظیمیں بھی سامنے آئی  ہیں حمایتی بن کر۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی خواتین نے پٹیشن دائر کی ہے۔ ان میں سے ایک عشرت جہاں بھی ہیں جنھیں فون پر طلاق دے دی گئی ہے۔ مجھے ان خواتین سے ہمدردی ہے جن کے شوہروں نے کسی نہ کسی وجہ سے انہیں طلاق دے دی جو کہ سراسر غلط فیصلہ تھا۔ میڈیا ٹی وی چینلوں پر ان خواتینوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے۔ ایسے بے شمار معاملات ہیں جہاں مسلم خواتین پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں۔ جب تک مسلم عورتیں طلاق کے مسئلے پر، نا انصافی کے حوالے سے عدالتوں سے رجوع ہوتی رہیں گی تب تک ایسے یا اس سے بھی بدتر فیصلے، تبصرے اور مشاہدے سامنے آتے رہیں گے۔

یہ ایک بہت بڑاالمیہ ہے۔ ہمارے اسلام کی شبیہ بکھیری جا رہی ہیں سر بازار نیلام کیا جا رہا ہے اور ہم تماش بین بنے بیٹھے ہیں صرف ٹی وی چینل اور اخبارات پر بیان بازی کرنا درست نہیں ہے۔ یہ ایک مسئلہ ہے جس کا حل بے حد ضروری ہے۔ کتنے علمائے کرام اور مسلم تنظمیں ہیں جو اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کمر بستہ ہے۔ ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کے بہانے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی بھر پور کوشش ہو رہی ہے۔ تاہم ان کی غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش جاری ہے جو میڈیا میں پروپیگنڈہ کر کے اسلام کو خواتین مخالف اور صنفی تعصب کرنے والا مذہب بتا رہے ہیں۔ مسلم عورتوں کی بعض تنظیموں کی طرف سے طلاق کو لے کر خواتین کے حق کے لئے جو تحریک چلائی جا رہی ہے، انھیں قرآن اور حدیث کی صحیح معلومات نہیں ہے۔  ایسے میں ہم مسلم خواتین کا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی حکومت ہند کے ہر اس فیصلے کی مذمت کریں جو اسلام کو بدنام کرنے کی کو شش کر رہی ہے۔ 

  ہندوستان کی زیادہ تر خواتین شریعت کے قانون کو ماننے کے حق میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عدالتیں مستقل حل نہیں دے سکتیں۔ کیونکہ وہ جانتی ہے اسلام نے معاشرہ میں مسلم خواتین کوایک اخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ عطا کیا ہے۔ مذہب اسلام نے خواتین کو جو حقوق عطا کیے ہیں، اس کی مثال دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ جولوگ قانون شریعت کو دقیانوسی قانون کہہ رہے ہیں، وہ اسلام کی حقانیت سے واقف نہیں۔انھیں یہ جان لینا چاہئے کہ مسلمان کسی بھی قیمت پرشریعت میں مداخلت کو قطعی برداشت نہیں کریگا۔ اسلام اول روز سے ہی عورتوں کے حقوق کا محافظ رہا ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جو اخلاقی، قانونی اور برابری کا مقام دیا ہے وہ نہ پہلے کوئی نظام عالمَ دے سکا ہے اور نہ آئندہ دے سکتا ہے۔

میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہمیں پہلے اپنا احتساب کرنا ہوگا مودی حکومت پر تنقید کرنے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مسلم بھائیوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنائیں اسلام نے مرداور عورت کو برابر کا درجہ دیا ہے۔ شریعت اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ شوہر بہت سمجھ بوجھ کر، انتہائی عفو و در گذر کے ساتھ اپنے حق کو استعمال کرے اگر بیوی میں خامی ہو تو اس کے عیوب پر صبر کرے، کوئی ناراضگی چل رہی ہوبیوی سے تو اس کی ناراضگی کو دور کرے اس کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک حلال چیز میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔اس لئے میری مسلم ماؤں بہنوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے جدوجہد کریں۔ اپنی گھریلو زندگی کو جھگڑے کی نذر کر کے طلاق جیسا طوق کو گلے میں ڈالنے سے بہتر ہے کہ معاملات کو سدھارنے اور نبھانے کی بھی بھرپور کوشش کی جائے۔ اگر خدانخواستہ کسی قسم کے حالات پیدا ہو جائیں جس سے مفاہمت کی ساری راہیں مسدود ہو چکی ہوں توہمارے مسلم بھائی محض وقتی اور ہنگامی حالات کی بنا پر بیوی کو طلاق نہ دیں۔اسلام نے بیوی سے علٰیحدگی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اگر معاملات میں سدھار نہیں آرہا ہے تو دونوں کے خاندان والوں میں سے کچھ سمجھدار اوربا اثر حضرات کی کمیٹی بنائی جائے جو دونوں کے مسائل کو سمجھ کر آسان طریقے سے حل کر سکیں۔ اس شرط پر کہ یہ طلاق خالص اسلامی طریقے سے نیک نیتی پر ہو نہ کہ دنیا کو دکھانے کے لئے۔ اور نہ ہی دوسری شادی کرنے کے لئے اسلام کانام لے کر طلاق کا غلط استعمال کیا جائے۔ ہمیں حکومت ہند کو اس بات کا احساس دلانا ہے بحیثیت مسلمان ان کی زندگی میں اسلامی تعلیمات کاکافی عمل دخل ہے ہمیں اسلام کی صحیح تصویر کو پیش کرنا ہے ساری قوتیں اور توجہ اسلام دشمن عناصر سے نمٹنے کے لئے صرف کرنی ہے اوراس سے بھی زیادہ اہم بات ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنے اور درست رکھنے کیلئے ضروری ہے تب ہی صحیح معنوں میں ہماری نجات ممکن ہے۔

نوشین انصاری

Sunday, 11 December 2022

میرے لئے اللہ ہی کافی ہے (Allah is enough for me)

 میرے لئے اللہ ہی کافی ہے

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کے میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں کیا سیکھا کیا تجربہ کیا تو میں کہو گی کے اللہ کے سیوا کوئی بھی اپنا نہیں ہوتا کل ملا کے انسان کا جو اثاثہ بچتا ہے وہ بس اللہ پر شروع اور اُسی پر ختم ہو جاتا ہے اور یہ دنیا یہ دوست حتٰی کہ عزیز رشتے سب غائب ہوجاتے ہیں کوئی مجھ سے پوچھے کے زندگی کا حاصل کیا ہے تو میں کہو گی اللہ کو راضی کرنا اور  ہر اُس خواہش کو  اُس انسان سے دور ہوجانا جس کی وجہ سے آپ اللہ سے دور ہو رہے ہو کوئی مجھ سے پوچھے محبت کا تو میں کہو گی اللہ اور بس اللہ ہی ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا ہے اُسکی محبت کو زوال نہیں ہے بس ایک وہی ہے جو ہمیشہ ساتھ دیتا ہے ساتھ رہتا ہے باقی ہر تعلق ہر رشتا ہر محبت  ارضی ہے 

ہر چیز بدل جاتی ہے اس زندگی میں حالات, لوگ, جگہیں, احساسات, پسند و نہ پسند حتی کہ ہم خود بھی

but one thing that remains constant is

الله میرے ساتھ ہے, الله میرا رب ہے

الله نے مجھے نہیں چھوڑا ہے میں الله کی نظر میں ہوں


Allah is enough for me

If someone asks me what I have learned and experienced in my life so far, I will say that no one belongs to Allah except Allah. And this world, these friends, even dear relationships disappear. If someone asks me what is the purpose of life, then I will say that it is to please Allah and to get away from every desire from that person, because of which you are Allah. If someone asks me about love, I will say Allah, and only Allah is the one who loves us and always does. Every relationship, every relationship, every love is earthly

Everything changes in this life, situations, people, places, feelings, likes and dislikes

Even ourselves

but one thing that remains constant is...

Allah is with me Allah is my Lord

Allah has not left me, I am in the sight of Allah


Nausheen Ansari

Ramadan Mubarak is also the month of reformation of individuals and society

The auspicious month of Ramadan has come to a shadow, Muslims are happy all around. The righteous servants of Allah eagerly wait for this mo...