Friday, 30 December 2022

نئے سال کا جشن اور نوجوان نسل کا طرز عمل

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نئے سال کا جشن منانا اسلام کے منافی ہے۔ اسلام سادہ مذہب ہے، سادگی کو پسند کرتا ہے، خرافات،لغویات اور بے جا حرکتوں کیلئے اسلامی معاشرہ میں کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جو اللہ کی عبادت وفرمانبرداری اور خلق خدا کی خدمت پر مبنی ہو۔ ماہ جنوری سے شروع ہونے والے سال کے اختتام پر آخر اس قدر خوشی کیوں؟اس کو منانے پر جنون جیسی کیفیت کی کیا وجہ ہے؟ کیا یہ طریقہ کارمسلمانوں کے لئے مناسب ہے؟ کیا اس نئے سال سے مسلمانوں کا کچھ لینا دینا ہے۔ پھر آج کیوں مسلمان اس کام کو انجام دے رہے ہیں؟ آخر یہ کس نے ایجاد کیا؟ کو ن سی قوم نئے سال کا جشن مناتی ہے؟ کیوں مناتی ہے؟ اور اس وقت مسلمانوں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ 

در اصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلی آرہی ہے، ان کے عقیدے کے مطابق 25/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہ کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔نئے سال کے جشن میں ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے، اور 13/ دسمبر کو لوگ رات دیر تک جاگتے رہتے ہیں اور نیا سال آنے کی خوشی میں جشن کی تیاری کرتے ہیں۔ جیسے ہی گھڑی کی سوئی 12/ بجاتی ہے لوگ گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ تفریحی مقامات پر چہل قدمی شروع ہوجاتی ہے، رقص و سرور کے پروگرام ہوتے ہیں۔ اس طرح آنے والے سال کو گویا خوش آمدید کہا جاتا ہے اور جانے والے سال کو رخصت کیا جاتا ہے۔ 

آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور 31 دسمبر کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے جب کہ یہ عیسائیوں کاتیوہار ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہو گیا“۔ مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے۔پھر کیوں مسلمان اس نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے؟

اسلام ہمیں قطعاً اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ نئے سال پر یا کسی بھی موقع پر آپے سے باہر ہوجائیں، پٹاخیں پھوڑیں، آتش بازیاں کریں، رقص وسرور کی محفلیں سجائیں، مختلف پروگراموں میں حصہ لیں۔ تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ نئے سال کو منانے کے لئے جو طریقے اختیار کئے جارہے ہیں وہ معاشرہ کے لئے انتہائی مہلک ہیں۔نوجوان نسل پر اس کے منفی اثرات پڑرہے ہیں،عریانیت وفحاشیت بڑھتی جارہی ہے۔ ناچ گانوں کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں جن میں نوجوان نسل بڑی تعداد میں شرکت کرتی ہے تو دوسری جانب ایسے مختلف حلقوں کو نمایاں کیا جا تا ہے جو سراسر اسلام کے بنیادی عقائد پر تبادلہئ خیال کرتے ہیں اس مقصد کے لیے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کوبے جا استعمال کیا جاتا ہے جن میں نئی نسل خاص طور پر ان کا ہدف ہوتی ہے۔

سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کس طرح سے نسل نوکو ان تمام چیزوں سے بچایا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم سوسائٹیوں، محلوں او رمسلم آبادیوں کو اس طرح کی تقریبات سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔؟ اس سلسلہ میں ملت کے ذمہ داروحساس افراد اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔اگر امت مسلمہ کو نئے سال جیسی مغربی تقریبات کے دور میں تنائج سے آگاہ نہ کیا گیا اور ان کو ان کے حال پر چھوڑدیا گیا تو مسلم معاشرہ میں ایسی فحش حرکات ولغوباتیں در آئیں گی جس سے معاشرہ میں بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔

اس کے علاوہ ہمیں ضرورت ہے اپنامحاسبہ کرنے کی ہمارے نامہئ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں۔ کیا ہم نے امسال اپنے نامہئ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اللہ کی اطاعت میں کوئی کمی تو نہیں آئی؟ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی یا نافرمانی؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کئے یا نہیں؟ اس کے علاوہ ہمیں عبادات، معاملات، حلال و حرام، اعمال کی ادائیگی کے میدان میں بھی اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؟۔ اگرگز رے ہوئے سال کی طرف مڑ کردیکھیں تو اس سال میں ہم نے خوشیاں کم اور غم زیادہ اٹھائے ہیں۔کتنے سانحات ہوئے؟اور کیا جو لوگ جو نئے سال کا جشن منا رہے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ اس سال میں تم نے ایسا کیا پا لیا ہے جس کے لیے جشن منا رہے ہو؟ظلم و جبر کے اس ماحول میں بھلا تم جشن کیسے مناسکتے ہو؟ 

جشن اور خوشی کا ماحول تو اس وقت بنتا ہے جب ہر طرف خوشحالی اور امن و امان ہو۔ جب کہ مسلمان اقتصادی، سماجی اور تعلیمی اعتبار سے کمزروسے کمزور ہوتے جارہے ہیں اور سیاستدان اپنی کرسی بچانے یا اپنی کرسی بنانے کے چکر میں عوام کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں۔ بھلا کیسے نئے سال کا جشن منا سکتے ہو؟ مسلمانو! اب بیدار ہوجاؤ۔ کب تک غیر مسلموں کی غلامی میں رہو گے؟ یہ تہوار ہر لحاظ سے غیر شرعی ہے۔ اس کا ہماری ثقافت اور ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہماری اقدار کے بھی منافی ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی سنت کو پورا کرتے ہوئے مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تہوار منانے کی بجائے اپنے اسلامی تہواروں کو منانا چاہیے۔ 

نوشین انصاری 

ممبئی


No comments:

Post a Comment

Ramadan Mubarak is also the month of reformation of individuals and society

The auspicious month of Ramadan has come to a shadow, Muslims are happy all around. The righteous servants of Allah eagerly wait for this mo...