آج جس موضوع کو میں اپنی تحریر میں لانے کی جسارت کر رہی ہوں وہ ایک سلگتا ہوا دلخراش مسئلہ بن گیا ہے۔ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا میں یہ موضوع شہ سرخی کے طور پر چھپنے لگی ہے۔ حکومت ہند طلاق ثلاثہ کو اپنے سیاسی مقصد کے تحت استعمال کر کے مسلمان قوم کے مذہبی جذبات کو مجروح کر رہی ہے۔ گزشتہ کئی مہینے سے چل رہے تین طلاق کے مسئلہ پر وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ تین طلاق کا رواج مسلم خواتین کے ساتھ نا انصافی ہے، تین طلاق مسلم خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے جب کہ ان کی حکومت ہمیشہ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کی حامی رہی ہے۔اتنا ہی نہیں انہوں نے اسلامی قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اسلام نے عورت کو عزت نہیں دی۔ عورتوں کو مردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مردوں کو چار شادی کی اجازت دی گئی ہے جبکہ عورتوں کو کوئی بھی حقوق نہیں دیا گیا۔ اس لئے مودی حکومت طلاق ثلاثہ جیسے مسئلے کو مسلم بہنوں سے نجات دلا کر انہیں برابری کے حقوق دینا چاہتی ہے۔ مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والی ہر طرح کی نا انصافی کو روکنا چاہتی ہے۔ واضح رہے کہ طلاق ثلاثہ کا جس معاملے کو مودی جی رواج بتا رہے ہیں وہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ جو لوگ اسلام کے ضابطہئ طلاق کا مذاق اڑاتے ہیں ان کو اپنے یہاں کے قوانین کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے۔ ہندو مذھب میں طلاق یافتہ اور بیوہ کے کیا حقوق ہیں؟ ستی جیسی گھناؤنی اور ظالمانہ رسم کہاں اور کس مذھب میں تھی؟
میری درخواست ہے مودی حکومت سے، جتنی جدو جہد وہ مسلم خواتین کی بھلائی کیلئے طلاق ثلاثہ کے خلاف کررہی ہے اتنی ہی محنت حکومت کو مسلم خواتین کو سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کو یقینی بنانے کیلئے بھی کرنی چاہئے۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مہاراشٹر میں گزشتہ حکومت نے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ۵فیصد ریزرویشن دیا تھا۔اس معاملہ پر بامبے ہائی کورٹ نے بھی تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی ہدایت دی تھی لیکن طلاق ثلاثہ پر مسلم خواتین کے غم میں ہلکان ہونے والی مودی حکومت نے مسلمانوں کو تعلیمی اداروں تک میں کوٹہ دینے سے انکار کردیا۔ آخر مسلم ریزرویشن پر حکومت کی ہمدردی کہاں چلی جاتی ہے؟
گزشتہ سال سپریم کورٹ میں مسلم خواتین کے حقوق کو بنیاد بنا کر تین بار طلاق کہنے کے معاملے پر سماعت شروع ہوئی تھی ان میں بہت سی خواتین کا کہنا تھا کہ مرد تین طلاق کے ذریعے انہیں ستاتے ہیں جس پر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ تین بار طلاق کہنے کی قانونی حیثیت پر سپریم کورٹ فیصلہ نہیں لے سکتا۔واضح ہوکہ ایک مجلس میں تین طلاق کے خلاف خود مسلم خواتین نے آوازاٹھائی ہے۔ اتراکھنڈ کی سائرہ بانو نے سب سے پہلے کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ اس کے بعد کلکتہ اور جے پور کی دو طلاق یافتہ خواتین نے بھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔اس معاملے میں مسلم خواتین کی بعض تنظیمیں بھی سامنے آئی ہیں حمایتی بن کر۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی خواتین نے پٹیشن دائر کی ہے۔ ان میں سے ایک عشرت جہاں بھی ہیں جنھیں فون پر طلاق دے دی گئی ہے۔ مجھے ان خواتین سے ہمدردی ہے جن کے شوہروں نے کسی نہ کسی وجہ سے انہیں طلاق دے دی جو کہ سراسر غلط فیصلہ تھا۔ میڈیا ٹی وی چینلوں پر ان خواتینوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے۔ ایسے بے شمار معاملات ہیں جہاں مسلم خواتین پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں۔ جب تک مسلم عورتیں طلاق کے مسئلے پر، نا انصافی کے حوالے سے عدالتوں سے رجوع ہوتی رہیں گی تب تک ایسے یا اس سے بھی بدتر فیصلے، تبصرے اور مشاہدے سامنے آتے رہیں گے۔
یہ ایک بہت بڑاالمیہ ہے۔ ہمارے اسلام کی شبیہ بکھیری جا رہی ہیں سر بازار نیلام کیا جا رہا ہے اور ہم تماش بین بنے بیٹھے ہیں صرف ٹی وی چینل اور اخبارات پر بیان بازی کرنا درست نہیں ہے۔ یہ ایک مسئلہ ہے جس کا حل بے حد ضروری ہے۔ کتنے علمائے کرام اور مسلم تنظمیں ہیں جو اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کمر بستہ ہے۔ ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کے بہانے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی بھر پور کوشش ہو رہی ہے۔ تاہم ان کی غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش جاری ہے جو میڈیا میں پروپیگنڈہ کر کے اسلام کو خواتین مخالف اور صنفی تعصب کرنے والا مذہب بتا رہے ہیں۔ مسلم عورتوں کی بعض تنظیموں کی طرف سے طلاق کو لے کر خواتین کے حق کے لئے جو تحریک چلائی جا رہی ہے، انھیں قرآن اور حدیث کی صحیح معلومات نہیں ہے۔ ایسے میں ہم مسلم خواتین کا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی حکومت ہند کے ہر اس فیصلے کی مذمت کریں جو اسلام کو بدنام کرنے کی کو شش کر رہی ہے۔
ہندوستان کی زیادہ تر خواتین شریعت کے قانون کو ماننے کے حق میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عدالتیں مستقل حل نہیں دے سکتیں۔ کیونکہ وہ جانتی ہے اسلام نے معاشرہ میں مسلم خواتین کوایک اخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ عطا کیا ہے۔ مذہب اسلام نے خواتین کو جو حقوق عطا کیے ہیں، اس کی مثال دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ جولوگ قانون شریعت کو دقیانوسی قانون کہہ رہے ہیں، وہ اسلام کی حقانیت سے واقف نہیں۔انھیں یہ جان لینا چاہئے کہ مسلمان کسی بھی قیمت پرشریعت میں مداخلت کو قطعی برداشت نہیں کریگا۔ اسلام اول روز سے ہی عورتوں کے حقوق کا محافظ رہا ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جو اخلاقی، قانونی اور برابری کا مقام دیا ہے وہ نہ پہلے کوئی نظام عالمَ دے سکا ہے اور نہ آئندہ دے سکتا ہے۔
میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہمیں پہلے اپنا احتساب کرنا ہوگا مودی حکومت پر تنقید کرنے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مسلم بھائیوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنائیں اسلام نے مرداور عورت کو برابر کا درجہ دیا ہے۔ شریعت اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ شوہر بہت سمجھ بوجھ کر، انتہائی عفو و در گذر کے ساتھ اپنے حق کو استعمال کرے اگر بیوی میں خامی ہو تو اس کے عیوب پر صبر کرے، کوئی ناراضگی چل رہی ہوبیوی سے تو اس کی ناراضگی کو دور کرے اس کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک حلال چیز میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔اس لئے میری مسلم ماؤں بہنوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے جدوجہد کریں۔ اپنی گھریلو زندگی کو جھگڑے کی نذر کر کے طلاق جیسا طوق کو گلے میں ڈالنے سے بہتر ہے کہ معاملات کو سدھارنے اور نبھانے کی بھی بھرپور کوشش کی جائے۔ اگر خدانخواستہ کسی قسم کے حالات پیدا ہو جائیں جس سے مفاہمت کی ساری راہیں مسدود ہو چکی ہوں توہمارے مسلم بھائی محض وقتی اور ہنگامی حالات کی بنا پر بیوی کو طلاق نہ دیں۔اسلام نے بیوی سے علٰیحدگی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اگر معاملات میں سدھار نہیں آرہا ہے تو دونوں کے خاندان والوں میں سے کچھ سمجھدار اوربا اثر حضرات کی کمیٹی بنائی جائے جو دونوں کے مسائل کو سمجھ کر آسان طریقے سے حل کر سکیں۔ اس شرط پر کہ یہ طلاق خالص اسلامی طریقے سے نیک نیتی پر ہو نہ کہ دنیا کو دکھانے کے لئے۔ اور نہ ہی دوسری شادی کرنے کے لئے اسلام کانام لے کر طلاق کا غلط استعمال کیا جائے۔ ہمیں حکومت ہند کو اس بات کا احساس دلانا ہے بحیثیت مسلمان ان کی زندگی میں اسلامی تعلیمات کاکافی عمل دخل ہے ہمیں اسلام کی صحیح تصویر کو پیش کرنا ہے ساری قوتیں اور توجہ اسلام دشمن عناصر سے نمٹنے کے لئے صرف کرنی ہے اوراس سے بھی زیادہ اہم بات ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنے اور درست رکھنے کیلئے ضروری ہے تب ہی صحیح معنوں میں ہماری نجات ممکن ہے۔
نوشین انصاری
No comments:
Post a Comment