ہمارا اور ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام قیامت تک کے لیے ہے، جس میں ترمیم و اصلاح کی ہرگز گنجائش نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس اعتقاد کے ساتھ کیا ہم واقعی دین و اسلام پر عمل بھی کرتے ہیں۔۔؟ گذشتہ چند سالوں سے مسلمانانِ ہند جن مسائل سے دو چار ہیں، ان کے ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہیں۔آج ہمارے دینی و معاشرتی مسائل میں جو دخل اندازی کی کوشش کی جا رہی ہے، جسے یونیفارم سول کوڈ کے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے اور جس کے لیے اہم مسلم جماعتیں بر سرِ پیکار نظر آ رہی ہیں، یہ واقعی وقت کی ضرورت ہے۔
مسئلہ طلاقِ ثلاثہ سے شروع ہو کر یونیفارم سول کوڈ تک جا پہنچا ہے، اس سے بے چینی تو یقینی ہے لیکن اس کا یہ فایدہ ضرور ہوا کہ مسلم عوام میں تحریک اور جماعتوں میں جوڑ نظر آنے لگا۔حال یہ ہے کہ جگہ جگہ شریعت کی حفاظت میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، حکومت سے شریعت میں مداخلت سے گریز کرنے پر دباؤڈالا جا رہا۔ جن حالات و مسائل کا اس وقت ملک کے مسلمانوں و اقلیتوں کو سامنا ہے، اس میں خاطی کہیں نہ کہیں وہ خود بھی ہیں۔
جب مسلمان خود اپنے گھریلو تنازعات کو قرآن وشریعت کی روشنی میں حل کرنے اور قرآن وشریعت کا فیصلہ قبول کرنے کے بجائے عدالتوں میں لے جاتے ہیں۔ حالیہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ بھی مسلمانوں کے غیر شرعی طرز عمل کے سبب پیدا ہواہے۔ عشرت جہاں اور سائرہ بانو یا دیگر چند خواتین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دینے کی جو درخواست کی ہے اس کا اصل محرک ان کے شوہروں کا غیر شرعی طرز عمل تھا، کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس وقت عام مسلمان طلاق کا مطلب تین طلاق ہی سمجھتا ہے۔ یہ بات غور و فکر کی نہیں کہ مسلمان اسلامی دارالقضاؤں سے رجوع ہونے کے بجائے عدالتوں کے چکر کاٹتے ہیں۔ذرا پولیس اسٹیشنوں کا جائزہ لیجئے، ہر جگہ برقع پوش خواتین کی بھیڑ نظر آئے گی، جب دو مسلمانوں کے درمیان آپس میں تنازع پیدا ہوجائے یا میاں بیوی میں ناچاقی ہو تو کیا وہ دونوں اسلامی شریعت کے مطابق اپنے مسئلہ کو حل کرنے کے پابند نہیں ہیں؟ کیا مسلمانوں کا ہر معاملہ قرآن وسنت سے جڑا ہوا نہیں ہے؟ طلاق کے واقعات مسلمانوں میں بہت کم ہیں،یہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں بلکہ اس کو سوچی سمجھی سازش کے تحت مسئلہ بنایا جارہا ہے۔میڈیا میں اسے غیر ضروری بڑھا چڑھا کر اچھالا جارہا ہے۔تین طلاق بل بچوں او ر عورتوں کیلئے ایک مصیبت ہے۔شوہر جب جیل چلاجائیگا تو انکے نان و نفقہ کا ذمہ دار کون ہوگا۔ یہ بل سراسر ناقص اور کمزور ہے اور اس بل میں کئی تضاد ہے، یہ بل مسلمانوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔
حکومت کاپاس کردہ تین طلاق مخالف بل جو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے، وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ بیک وقت میں تین طلاق دینے سے طلاق واقع ہی نہیں ہوگی۔ مگر مرکزی حکومت نے جو ہ قانون منظور کیا ہے وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے صریح خلاف ہے۔ اس میں تین طلاق دینے کی صورت میں شوہر کے لئے تین سال تک کی سزا تجویز کی گئی ہے اور اس دوران نان ونفقہ بھی شوہر کے ذمے رکھا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تین طلاق دینے کی صورت میں طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تو پھر سزا کس لئے؟ اور جب طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تو شوہر کو نان ونفقہ دینے کا پابند بنانے کا کیا جواز؟ کہا تو یہ جارہا ہیکہ مسلم خواتین کو مسائل سے آزادی دلائینگے۔
اگر واقعتا حکومت کو مسلم خواتین سے ہمدردی ہے اوروہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کام کرنا چاہتی ہے تو اسے مسلم پرسنل لاء بورڈ،جمعیۃ علماء ہند اور دیگر سرکردہ تنظیموں اورعلماء کرام سے مشورہ کرکے ہی کوئی قدم اٹھانا چاہئے تھا۔ بغیر علماء کرام سے پوچھے عجلت میں پارلیمنٹ میں تین طلاق بل کو لایا گیا۔ جس کیلئے قانون بنایاجارہا ہے ان سے پوچھا بھی نہیں جارہا ہیکہ ان کی رائے کیا ہے۔ پریس و میڈیامیں ایسی نام نہاد مرتد خواتین کو لاکرہوّا کھڑاکرکے جھوٹے پروپگنڈے کئے جارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو نہ تو تین طلاق سے کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی مسلم خواتین سے اسے کوئی ہمدردی ہے۔ وہ بس ووٹ بینک کی پالیسی پر عمل کررہی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف قانون بناکرملک کی اکثریتی ہندو آبادی کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ بتایا جارہا ہے کہ مسلم عورت کتنی مظلوم ہے اور مسلم قوانین بہت ظالم ہیں مسلم عورت کو اس سے راحت دلانا بہت ضروری ہے، یہ سب دراصل جھوٹا پروپگنڈہ ہے۔ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ اس ملک کو ہندوراشٹر بنادے اور مسلمانوں کے تشخص کو ہندوستان سے مٹادے۔ حکومت کو مسلمانوں کی تعلیم و ترقی سے زیادہ مسلمانوں کے ایمان و عقائد اور اصول شریعت میں مداخلت کرنے،مسلمانوں کے خاندانی نظام کو تہس نہس کرنے میں دلچسپی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ مسلم سماج اور خاندانوں کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچادیاجائے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ ایک سول کنٹراکٹ کو کریمنل ایکٹ بنایا جارہا ہے۔ ہم مسلمانانِ خواتین حکومت کے ان ناپاک عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس ملک میں شریعت کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے اور ایمانی فریضہ بھی ہے۔ شریعت میں مداخلت روکنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان ایسی ہر سازش کے خلاف متحد ہوجائیں، لیکن شریعت کے حسن اور وقار کی حفاظت کے لئے متحد ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سارے مسلمان خود کو شریعت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ اور اس کے لئے لازم ہے کہ مسلمانوں کا باعلم اور باشعور طبقہ سامنے آئے، اور شریعت پر عمل کے مثالی طریقوں کو مسلمانوں میں عام کرے۔
ہمارا مسلم پرسنل لا بورڈ اس وقت ملک میں سرمایہ ملت کے نگہبان کی حیثیت رکھتا ہے، اس ادارہ کا قیام ہی تحفظ شریعت کی خاطر ہواہے، ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مسلم پرسنل لا بورڈ کی ا ٓواز بنیں۔ ہم مسلم خواتین کی ذمہ داری ہیکہ شریعت کی تائید میں اور تین طلاق بل کی مخالفت میں جمہوری طریقہ پر احتجاج کریں۔شریعت ہماری پسند ہے، ہمارا فخر ہے، مجبور ی نہیں۔اسلام کی اس نعمت کا ہم آخری دم تک حفاظت کریں گے۔ ہم سب مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں اور دین و شریعت میں بے جا مداخلت کی مخالفت کرتے ہیں اور مصمّم ارادہ کرتے ہیں کہ اپنی داخلی و خارجی زندگی میں اسلامی احکامات کو سر آنکھوں پر رکھیں گے، آئیے آپ بھی ہمارے ساتھ ارادے اور عزائم مضبوط کیجیے!
نوشین انصاری
No comments:
Post a Comment