Thursday, 22 December 2022

مسلم خواتین کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعلیمی مواقع کیا ہیں؟

 آج یہ بات پوری دنیا پر عیاں ہوچکی ہے کہ تعلیمی پسماندگی میں مسلم خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ قرآن کریم میں 500 سے زائد آیتیں تعلیم سے متعلق ہیں، جن میں تعلیم کی اہمیت و افادیت کو صاف الفاظ میں واضح کیا گیا ہے۔ پھر کیا وجوہات ہیں جو مسلم خواتین تعلیم کے تئیں بیدار نہیں ہورہی ہیں۔

عورتوں کے برابری کے حقوق ہر مذہب میں دئے گئے ہیں لیکن اس پر عمل نہ ہونا باعث تشویش ہے۔ مذہب اسلام میں عورتوں کے حقوق کے تئیں سخت ہدایات موجود ہیں اور ان کو تعلیم یافتہ بنانے کی کئی احادیث ملتی ہیں۔ ان سب کے باوجود آج مسلم خواتین ہی تعلیم کے میدان میں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ جہاں ایک آدمی کو تعلیم یافتہ بنانے سے وہ صاحب کردار بنتا ہے وہیں ایک عورت جب تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو دو خاندانوں کو تعلیم یافتہ بناتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انکی تعلیم کو ایک مشن بنایا جائے تاکہ وہ تعلیم یافتہ ہوکر ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کرسکیں۔

عالمی و قومی سطح پر بیسویں صدی کئی اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل صدی رہی ۔جہاں اس صدی میں دنیا کی تاریخ وجغرافیہ ، معاشرت و تہذیب ،علم وادب میں نمایاں تبدیلیاںرونما ہوئیں وہیں سماج میں خواتین کے بہتر مقام و مرتبہ کو لے کر شعور بھی کافی بیدار ہوا اورمختلف اقدامات کے نتیجہ میں کسی حد تک صدیوں سے چلی آرہی خواتین کی پست حیثیت میں بہتری آئی۔ جب انہیں مواقع ملے تو تاریخی ادوار میں گم شدہ ا ور مسخ شدہ ان کا وجودتعلیم یافتہ،با شعور و با اختیار فرد کی حیثیت سے مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی حصّہ داریوں اور صلاحیتوں کا لو ہا منوانے لگا۔اگرچہ کہ یہ صورتِ حال تمام ممالک میں یکساں نہیں ہے بلکہ بیشتر ممالک بشمول ہندوستان میں خواتین کی آبادی کی بڑی شرح آج بھی ناخواندگی، پسماندگی ، غربت اور بے شمار صنفی مسائل کا شکار ہیں۔ ازماضی تا حال خواتین کی حیثیت کے اس بدلتے مو قف اور عصرِ حاضر کے تناظر میں یہ جا ننا مقصد ہے کہ

عصرِ حاضر میں ہندوستانی مسلم خواتین اپنا کیا مو قف رکھتی ہیں ؟

ہندوستان میں مسلم خواتین کس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں ؟

کیا ہندوستانی مسلم خواتین عصری تحدیات کا مقابلہ کرنے اور ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے قابل ہیں؟

بین الاقوامی سطح پر اگر خواتین کا جائزہ لیا جائے تو دنیا میں دو تہائی کام کا بوجھ اٹھاتی ہیں۔ وہ معاشی سرگرمیوں سے ہمیشہ متاثر ہوتی ہیں، ان کے پاس مواقع کم ہوتے ہیں اور دوسرے جو وہ کام کرتی ہیں وہ شمار نہیں کیاجاتا۔اگر تعلیم نسواں کا جائزہ لیا جائے تو مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعلیم بہت کم ہے۔2001 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں تعلیم کی شرح64.8% اس میں مرد75.3%اور خواتین کا تعلیمی فیصد53.7%ہے۔ ہندوستان کے تمام صوبوں میں شرح خواندگی میں جنسی تفریق موجود ہے.

ہندوستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اس ملک کی ایک خاص تاریخی، سیاسی ،سماجی ،مذہبی و تہذبی شناخت رہی ہے۔اس ملک کی کل آبادی مختلف مذاہب اور زبان وتہذیب کے حامل افراد پر مشتمل ہے۔ملک کی آبادی کا تقریباً چودہ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔کثیر آبادی والے اس ملک میںمسلمان قوم کو سب سے بڑی اقلیت کا درجہ حا صل ہے ۔دستورِ ہند کے مطابق مسلمانوں کو بھی بہ حیثیت ہندوستانی شہری ترقی کے اتنے ہی مساویانہ مواقع اور حقوق حا صل ہیں جتنے کہ اس ملک کے د یگر طبقات کو حا صل ہیں۔ با وجود اس کے مسلمانو ں کے صورت حال کے متعلق شائع شد ہ مختلف رپورٹس کے نتا ئج ظا ہر کر تے ہیں کہ مسلمان تمام شعبہ ہا ئے حیات میں دیگر مذاہب کے افراد کے مقابلے میں پچھڑے ہو ئے ہیں اور ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل نہیں ہیں۔ مسلمان طبقہ کی بڑی تعداد عصرِ حاضرکے بدلتے معیارات اور تقاضوں کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ انھیں تعلیمی، سماجی،معاشی ،ثقافتی اور سیاسی سطح پر کئی تحدیات کا سامنا ہے ۔ مسلمانوں کی مجموعی صورتحال کے مقابلہ میں خواتین کا صورت حال اور بھی ابتر اور پسماندہ ہے۔مسلم خواتین ترقی کے نشانہ سے بہت دور ہیں۔اگر چہ کہ ملک کی آزادی کے بعد لڑکیوں و خواتین کی تعلیم وترقی کے لیے گوناگوں اقدامات اختیار کیے گئے لیکن ان کے اثرات ملک کے تمام طبقات کی خواتین پر مرتب نہیں ہو سکے ،بالخصوص مسلم خواتین تعلیم وترقی کے میدان میں کافی پچھڑ گئیں۔

مسلم خواتین چونکہ بے شمار عائلی مسائل اور گھریلو تشدد سے متا ثر ہیں اسی لیے ان کے لیے ایک با شعور فرد کی حیثیت سے اپنے شرعی ودستوری حقوق سے واقفیت حاصل کر نالازم ہوگیا ہے ۔جس کے استعمال سے وہ اپنی نجی وسماجی زندگی باوقار انداز سے گذار سکتی ہیں۔اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ خواتین کی تعلیم، ترقی وبااختیاری کے لیے دستیاب سرکاری سہولتوں او روسائل تک ان کی پہنچ ہو اور وہ استفادہ کر پائیں۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے محلہ واری سطح پر زیادہ سے زیادہ شعور بیداری پروگرامس منعقد کیے جائیں۔ان مقاصد کی تکمیل کے لیے حکومت یا مذہبی وسماجی تنظیموں کو ذمہ دار ٹہرانے کے بجائے مسلم معاشرے کے زیادہ سے زیادہ مرد وخواتین کو اب میدانِ عمل میں آنااور مختلف اقدامات کو اپنانا نا گزیر ہو گیا ہے تاکہ مسلم خواتین کی تعلیمی ،سماجی ،معاشی وصحتی پست حالت کو بہتر بنایا جا سکے اور ہندوستانی سماج میں ان کی مسخ شدہ شبیہ کو بہتر بنایا جا سکے۔ انہیں اس قابل بنایا جاسکے کہ وہ اپنے شرعی، دستوری و قانونی حقوق کا استعمال کرتے ہو ئے ، تعلیم یا فتہ ، ہنر مند ،با صلاحیت ،با شعورا ور با اختیار سماجی فرد کی حیثیت سے ہندوستان میں باوقار زندگی گزارسکے نیز بدلتے تقاضوں اور نئی تحدیات کا مقابلہ کر نے کی اہل ہو سکے۔

نوشین انصاری

ممبئی

No comments:

Post a Comment

Ramadan Mubarak is also the month of reformation of individuals and society

The auspicious month of Ramadan has come to a shadow, Muslims are happy all around. The righteous servants of Allah eagerly wait for this mo...