معاشرے میں خواتین اہمیت کا مقام رکھتی ہیں۔ عورت ماں،بیٹی،بیوی کے روپ میں اللہ کی طرف سے مرد کیلئے نعمت بناکر بھیجی گئی ہے۔ ماں کی صورت میں بچے، بیٹی کی صورت میں باپ اور بیوی کی صورت میں شوہر کی زندگی بھر خدمت کرتی ہے غرض کہ دین اسلام نے خواتین کو جو عزت مرتبہ دیا ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں ہے۔ عورت درحقیقت وہ عظیم ہستی ہے جو معاشرے کی پرورش وتربیت کرتی ہے۔ ملک کی ترقی میں خواتین کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں آج ہر شعبے میں خواتین ملکی ترقی اور خوشحالی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔ دور بدلے، تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ان تبدیلیوں کا اثر جہاں سماج کے ہر طبقے پر پڑا تو سماج کا اہم حصہ خواتین اس سے کیسے مستثنی رہ سکتی تھیں۔انہی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے کہ گھروں میں کھانا پکانے اور سلائی کڑھائی میں مصروف رہنے والی خواتین آج معلمہ، ڈاکٹر اور انجینئر ہے اور آسمانوں میں جہاز اُڑانے سے لے کر چھوٹے کاروبار تک تقریباً تمام شعبہ ہائے جات میں اپنی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں وجود ِزن سے ہے تصویر ِکائنات میں رنگ۔۔۔ اور کیوں نہ ہو؟ خواتین دنیا کی آبادی کا تقریباً نصف ہیں اور گھریلو ذمہ داریوں سے لے کر زندگی کے لگ بھگ ہر شعبے میں اپنی شناخت بنا رہی ہیں۔
حالانکہ پہلے زمانے میں خواتین پر زیادہ ذمہ داریاں تھیں اور وہ بہت مصروف رہتی تھیں۔ جب کہ آج کے دور میں خواتین پر اتنی ذمہ داریاں نہیں ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مشینی دور نے جہاں خواتین کو بہت سی سہولیات مہیا کی ہیں جس کی وجہ سے ان کے کچن کے کام آسان ہو گئے،جیسے کپڑوں کی دھلائی، گھر کی صفائی، ان سارے کاموں میں بھی نوکرانیوں اور مشینوں کی سہولیات میسر ہیں وہیں ان پر کچھ دوسری ذمہ داریاں آ گئی ہیں۔ بچوں کی پڑھائی، ان کا ہوم ورک کرانا، اسکول تک چھوڑ کر آنا، لے کر آنا وغیرہ۔اس کے علاوہ ملازمت پیشہ خواتین بھی ہے جو ملازمت کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمہ داریوں کوبھی بخوبی حسن نبھا رہی ہے۔ غرضیکہ آج کے دور کی خواتین معاشی خود کفالت میں کسی نہ کسی طرح سے مردوں کا بھر پور ساتھ دے رہی ہے۔ عورت میں قدرتی طور پر وہ خصوصیات پائی جاتی ہے جو نسلوں کی آبیاری کرتی ہے۔ گھر اور معاشرے میں با عزت مقام پانا عورت کاحق ہے۔ خواتین کو معاشی،سماجی اور سیاسی طور پر مضبوط بنانا ان کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرنا اور انہیں کسی امتیاز کے بغیر یکساں مواقع فراہم کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ انہیں یہ سمجھانا ہو گا کہ ایک اچھی شخصیت کی تعمیر معاشرتی ترقی کے لئے کیا معنی رکھتی ہے۔ موجودہ دور کے حالات کے پیش نظر گھریلو اور ملکی نظام کو چلانے کے لیے خواتین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جانا چاہئے۔اس کے علاوہ تعلیم برائے روزگار اور تربیت کو ہر سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ بالخصوص لڑکیوں کو عملی زندگی کے مطابق کیرئیر کونسلنگ فراہم کی جائے۔ تربیتی اداروں خوا تین کو بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار فراہم ہو۔ ایسی خواتین کی بھی کاؤنسلنگ کی جائے جو مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ ایسا نظام بھی تیار کیا جائے جہاں ایسی خواتین سے بآسانی رابطہ قائم کیا جا سکے۔
خواتین کا کردارمعاشرے کی تعمیرو تربیت اور ترقی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ سچ ہے کہ دنیا میں آج خواتین گھر سے باہر نکل کر اپنے پسند کے شعبوں میں مستعدی سے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ اس لئے پڑھی لکھی اور باشعور خواتین کو عملی سیاست میں شامل ہوکر معاشرے سے پسماندہ سوچ اور رویوں کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ خواتین کی جدوجہد ہمارے معاشرے میں بہت اہم ہے۔ اگر ہم بحیثیت فرد یا بحیثیت گروہ کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی کن کمزوریوں کو دُور کرنا ہو گا اور کن خوبیوں کو بہتری کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔ بالخصوص عورت کے حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس معاشرے کے حقائق کیا ہیں؟ کون سے مظالم ایسے ہیں، جن کو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اور کون سے حقائق ایسے ہیں جو کسی اور مسئلے کی پیداوار ہیں، ان کو کیسے حل کیا جائے؟ یہاں بھی رد عمل کے بجاے مثبت اور فعال سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔
اگر خواتین معاشی خود کفالت کی جانب اپنے قدم بڑھائیں گی تو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ اورحضرت فاطمہ ؓ کامعاشرے میں کردار خواتین کیلئے مشعل راہ ہے خواتین کو چاہیے کہ وہ ان کی تعلیمات اور ان کے سنہری اصولوں پر کاربند رہ کر ملک وقوم کی بہترین رہنمائی کریں۔
نوشین انصاری
ممبئی
No comments:
Post a Comment