Tuesday, 16 August 2022

والدین کی خدمت اولاد پر فرض بھی اور قرض بھی


ماں باپ کی خدمت کو جہاد پر ترجیح دی گئی ہے۔ اسلام اولاد کو حکم دیتا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نرمی و تواضع، خاکساری و انکساری سے پیش آئے، ان کے ساتھ احترام و محبت کا بر تاؤ کرے۔جو لوگ والدین کی خدمت سے کنارہ کشی کرتے ہیں، وہ بہت ہی بدبخت ہیں، لیکن اس میں کچھ قصور والدین کا بھی ہے، وہ بچوں کو مغربی تعلیم و تربیت دیتے ہیں، دِینی تعلیم و تربیت سے محروم رکھتے ہیں، نتیجتاً اولاد بڑے ہوکر مغربی عادات و اطوار کو اپناتی ہے، اور سب جانتے ہیں کہ مغرب میں والدین کی خدمت کا کوئی تصور نہیں، اولاد جوان ہوکر خودسر ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھا دیا ہے کہ ہم بچپن میں کس طرح بے یار ومددگار تھے والدین نے ہمیں پالا پوسہ اور پروان چڑھایا، ہمارے والدین ہماری ہر خواہش پوری کرتے تھے مکمل خلوص اور محبت کے ساتھ، اسی لئے اولاد پر فرض ہے کہ وہ والدین کا احترام کرے اور ان سے اچھا سلوک کرے۔ اگرچہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب واحترام کرنا چاہئے لیکن ان کی طرف زیادہ تر توجہ اس وقت ہونی چاہئے جب وہ بوڑھے ہوجائیں کیونکہ وہ بھی اسی طرح بے یارو مددگار ہوجاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں تھے۔ مگر آج کل مسلم معاشرہ میں اسلامی طرز و تہذیب و ادب کے خلاف مغربی تہذیب و اطوار کا بول بالاہے۔ اولاد کی پیدائش کے موقع پر والدین خوشی و مسرت کے عالم میں اتنا بے خود ہوجاتے ہیں کہ انہیں حدود شرع کی پامالی کا کوئی خوف نہیں ہوتا، اولاد کا استقبال اسلامی طرز پر اذان و دعاؤں سے نہیں بلکہ اس کی جگہ ڈھول باجے سے کرتے ہیں۔ غور کیجئے اولاد کا ذہن ایک لوح سادہ کی مانند ہوتا ہے۔ اس پر جس طرح کی تعلیم و تربیت، ادب و تہذیب کی تحریر لکھی جائیں گی اسی انداز میں اولاد پروان چڑھے گی۔ آپ کی تہذیبی و ثقافتی روایات مذہبی تعلیمات اور پیغام توحید کو زندہ تابندہ رکھنے میں اولاد اہم رول ادا کرتی ہے اور مومن نیک اورصالح اولاد کی تمنا اسی لئے کرتا ہے کہ اس کے بعد اس کے پیغام کو زندہ رکھ سکے۔ 

ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے میں روز کی طرح اپنی دھن میں مگن بس اسٹاپ پر جا رہی تھی کہ اچانک ایک آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ”بیٹی کہاں جا رہی ہو؟“ اگر آپ کو راستے میں اچانک کسی ایسے سوال کا سامنا ہو جائے، تو آپ بھی میری طرح پہلے سٹپٹائیں گے۔ نحیف زدہ سی آواز نے میرے بڑھتے قدم روک دیے۔قریب ہی ایک ضعیف العمر خاتون کھڑی تھی۔ چونکہ میری اور ان کی سمت علیحدہ تھی تو انہوں نے کہہ دیا کہ بیٹی جاؤ میں کسی اور کو دیکھ لیتی ہوں مگر ان کے لہجے کی مایوسی نے مجبور کیا تو ان سے پوچھا کہ آپ کو کہاں جانا ہے، میں چھوڑ دیتی ہوں، مجھے کوئی جلدی نہیں۔ اس پر انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ احسان مندی اور تشکر سے دیکھا تو شرمندگی سی محسوس ہوئی۔ ان کا ہاتھ تھام کر میں ان کی سہولت کے مطابق ہی چلنے لگی۔ رندھی آواز میں انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں بیٹا بہو پوتے پوتیاں سب ہیں لیکن بڑھاپے میں کون پوچھتا ہے، بس موت کے انتظار میں جی رہے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ پھر بے آواز رونے لگیں۔ میری مزید کچھ بولنے یا پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ان کو مطلوبہ کلینک کے پتہ پر پہنچا کر میں لوٹ گئی اور سارا راستہ اس ضعیف العمر خاتون کے گھر والوں کے رویے کے بارے میں سوچتی رہی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی ایک گھر کی کہانی نہیں ہے، کم و بیش ہمارے معاشرے کا مجموعی رویہ ایسی ہی تصویر دکھا رہا ہے۔ لوگوں نے مغرب کی طرح اولڈ ہاؤس تعمیر نہیں کیے مگر کیا اس عورت کا گھر اولڈ ہاؤس کا عملی نمونہ نہیں جہاں قسمت نے بیٹا تو دیا لیکن اس نے اپنے والدین   کی قدر و اہمیت نہ جانی اور اس مجبوروبے بس ماں کو راہ چلتے مسافروں سے مدد کی درخواست کرنا پڑا۔ 

والدین سے بد سلوکی،بد زبانی،طعنے دل دکھانے والی باتیں تو ایک معمول بن چکا ہے۔ اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے ان کے پاس ماں باپ کے پاس بیٹھنے،باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے۔ والدین کو ان کی سگی اولاد یا تو بوجھ سمجھتی ہے یا پھر ان کے لیے گھر چھوٹے ہوتے ہیں۔ کہیں دل اتنے چھوٹے ہوگئے ہیں کہ سگی اولاد اپنے والدین کے لیے ایک مہینے تمہارے گھر، ایک مہینے میرے گھر، پر بحث ہونے لگی ہے اور اگر والدین بڑھاپے کے باعث کسی بیماری میں مبتلا ہوگئے تو بیٹا یا بیٹی، والدین کے جراثیم سے اپنے بچوں کو بچانے لگیں کہ والدین خود دور رہیں تاکہ ان کے بچے صحت مند رہیں۔ حیرت کا مقام ہے آج اولاد کے پاس والدین کے لئے وقت نہیں ہے، جنہوں نے اس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا؟ ”کیا ہمارے بچے ہمیں قبر تک سہارا نہیں دے سکتے؟ کیا اولاد کی اچھی پرورش نہ کرنا ہمارا جرم ہے؟ اولاد یہ کیوں سمجھتی ہے کہ ماں باپ کو ان کی ضرورت نہیں؟ یہ ایسے سوال ہیں جو ہر وہ شخص کرتا ہے جس کی اولاد اس کی عزت نہیں کرتی یا اولاد نے والدین کو گھر سے دربدر کردیا ہے“۔ بزرگ خاندان کو قائم رکھتے ہیں اور بزرگوں کی دعاؤں سے گھر آباد رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ والدین تو دس بچوں کو پال سکتے ہیں مگر دس بچے ایک ماں اور باپ کو نہیں پال سکتے۔ گھریلو ناچاقیاں اولاد کے والدین سے جھگڑے اس معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ ان تمام جھگڑوں کی اصل وجہ والدین کی بچوں کو نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے مطابق تربیت نہ کرنا ہے کیونکہ شروع دن سے والدین یہ سوچتے ہیں کہ بچوں کا مستقبل اچھا ہوجائے ان کی آمدنی اچھی ہوجائے۔ معاشرے میں ان کا ایک مقام بن جائے۔ ان تمام کاموں کی وجہ سے والدین بچوں کی دینی تربیت نہیں کرپاتے اور نتیجہ۔۔۔۔۔؟؟ آپ آج معاشرے کے اندر دیکھیں کہ کس طرح اولاد ماں باپ کی نافرمانی کررہی ہے۔

والدین کا بڑا مقام ہے اور یہ مقام اللہ نے خودطے کر دیا ہے۔ والدین حسن سلوک و آداب واحترام کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔ والدین کے جواحسانات اولاد پر ہیں،وہ تمام عمر کی خدمت سے بھی ادا نہیں ہو سکتے۔ اگر کوئی تنگ دل شخص والدین کے حقوق ادا نہیں کرتا اور انہیں دُکھ دیتا ہے تو وہ درحقیقت ایمان کی حقیقی دولت سے محروم ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اولاد اپنے والدین سے اس قدر لا پراوئی اور بے حسی کا رویہ کیوں ر کھتے ہیں شائدوہ بھول جا تے ہیں کہ ہم نے بھی کبھی بوڑھا ہو نا ہے۔ وقت جس تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم ماہ سال کو گن بھی نہیں پاتے کہ کیلنڈر تبدیل ہو جاتے ہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بے بسی کا یہ دور جلد ہم سب پر بھی آنے والا ہے۔ خدارا اپنے والدین سے اچھے برتاؤ کی ایسی مثالیں اپنے بچوں کے سامنے پیش کر یں کہ وہ والدین  کی خدمت کو زندگی کالازم و ملزوم حصہ سمجھنے لگے آج اگر ہم اپنے والدین کو یرغمال بنائیں گے تو کل تا وان بھی تو ہمیں ادا کرنا ہو گا یہ تو سب جا نتے ہیں کہ جیسا کریں گے ویسا ہی بھریں گے۔ لیکن محض باتوں سے تو کبھی بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، معاشرے کی مثبت تعمیر کے لیے عمل کی راہیں نکالنی ہی پڑتی ہیں۔

نوشین انصاری


2 comments:

Ramadan Mubarak is also the month of reformation of individuals and society

The auspicious month of Ramadan has come to a shadow, Muslims are happy all around. The righteous servants of Allah eagerly wait for this mo...