ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بنتا جارہا ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کو تعلیم تو دلارہی ہیں مگر انھیں امور خانہ داری سے دور رکھنے کی سعی بھی کرتی ہیں۔ باورچی خانے میں اکثر مائیں سارا دن کام کرتی ہیں اور بیٹیاں آرام طلبی کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ بچیوں کو اگر بچپن سے ہی چھوٹے چھوٹے کام کرنا سکھائے جائیں تو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں باورچی خانے میں سلیقے سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے گھریلو امور میں بھی دل چسپی پیدا ہوجائے گی۔ ماؤں کو چاہیے کہ باورچی خانے میں کام کرتے ہوئے بیٹیوں کو بھی ساتھ رکھیں اور ان کے ذمے چھوٹے چھوٹے کام لگانا شروع کردیں۔
عموماً مائیں اپنی بیٹیوں سے یہ سوچ کر کام نہیں کرواتی کہ انھیں سسرال جاکر یہی سب کرنا ہے یا جب خود پر پڑے گی سب کر لے گی؟ کیا ماؤں کا یہ رجحان صحیح ہے؟ کیا واقعی وقت پڑنے پر لڑکی چابی کی گڑیا بن کر خود بخود کام کرنے لگ جائے گی؟نہیں۔! اسے ماں باپ کے گھر سے ہی امور خانہ داری نبھانے اور سنبھالنے کا سلیقہ آنا چاہئے۔ بیٹیاں جب سسرال جاتی ہے توبعد میں ایک ساتھ کئی ذمہ داریاں اس کے لئے پریشانی کاباعث بن جاتی ہے ہر روز نت نئے مسئلوں میں گھری رہتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے گھروں میں لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں یا پھر لڑکیاں الگ رہنا پسند کرتی ہے جس سے گھروں کا سکون تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ ایسے نازک حالات میں والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت پر بھی خاص توجہ دیں، صرف تعلیم دلانا ہی کافی نہیں، بلکہ تربیت بھی ضروری ہے۔ والدین اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ گھر سلیقے اور قرینے سے چلائے جاتے ہیں نہ کہ ڈگریوں سے۔ بیٹی تو اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور بیٹی کے دم سے ہی گھر میں رونق ہوتی ہے۔ والدین بیٹیوں کواپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، نازوں سے پالتے ہیں اور زمانے کے سردوگرم سے بچاتے ہیں لیکن شادی کے بعد اگر بیٹی خوش نہ ہو تو والدین بے بس ہوجاتے ہیں۔ لڑکی کے لئے سسرال کا مطلب نیا گھر اور نئے لوگ ہوتے ہیں جسمیں جگہ بنانا یقیناًلڑکی کے لئے مشکل کام ہوتاہے۔
معاشرے میں اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو اچھی سے اچھی تعلیم تو دلوا دیتے ہیں لیکن امور خانہ داری سے دور رہنے کی سعی بھی کرتے ہیں۔ آج کی لڑکیاں تعلیم یافتہ تو ہوتی ہیں لیکن تربیت یافتہ بہت ہی کم۔ تعلیم وتربیت دونوں الگ الگ جز ہیں۔ دراصل ماں باپ کی بھی کچھ خامیاں ہیں جو اپنی بیٹیوں کو یہ نہیں سکھا رہے ہیں کہ انہوں نے اگر دوسرے گھر جانا ہے تو کیا کرنا ہے؟ نہ اسے کھانا بنانے ککا طریقہ بتلاتے ہیں نہ صفائی ستھرائی کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ بلکہ یو ں کہتے ہیں خالی میری بچی پڑھے گی۔ بھلا ہماری بیٹی کے پاس وقت کہاں کہ وہ امور خانہ داری سنبھالے، وہ تو بس صرف اور صرف اپنی تعلیم پر ہی توجہ دے اور دل لگا کر تعلیم حاصل کرے۔ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ اپنی بیٹی کو اس قدر پینڈو اورکند ذہن بنا رکھا ہے کہ جدید دور کے تقاضوں سے آشنا ہی نہیں؟ کون سا فیشن چل رہا ہے اور کون سا برینڈ اسے خریدنا ہے جو لوگوں میں بہت ہی مقبول ہے۔ یہ کوئی بہت ہی باعث فخر و مسرت کی بات نہیں ہے ہاں لیکن یہ دکھ کی بات ضرور ہے کہ آپ کی بیٹی کو نا چائے بنانی آتی ہے اور نہ مہمانوں کی آؤ بھگت کرنا۔ بات یہ نہیں کہ فیشن ٹرینڈز اور نت نئے برینڈز سے آشنائی اور ان کی خریداری بری بات ہے، اچھی بات ہے، انسان کو جدت پسند ہونا چاہئے اور اچھا پہننا اوڑھنا چاہئے لیکن صرف اچھا پہننا اور اچھا دکھنا کافی نہیں ہوتا۔ ماؤں کو بیٹیوں کو پیار اور سخت پرورش دونوں طریقوں سے پروان چڑھانا چاہیے کیوں کہ“آپ کی بیٹی کا کل کسی نے نہیں دیکھا۔
تاہم اگر آپ اپنی بیٹی کی تربیت اس اندا ز سے کریں کہ وہ آگے جاکر پریشان ہونے کے بجائے عقلمندی سے فیصلے کرے تو اسمیں کوئی شک نہیں کہ وہ سسرال میں اپنی جگہ بآسانی بناسکتی ہے۔ بیٹیوں کو سسرال میں اپنی جگہ پیار محبت سے بنانا سکھائیں دل محبت اور خدمت سے جیتے جاتے ہیں۔ سسرالی رشتوں کا احترام بہت ضروری ہے اگر رشتوں کالحاظ نہیں ہوتاتو دلوں میں کدورتیں بڑھ جاتی ہیں ساس سسر کو اپنے والدین جیسا سمجھنے کا درس دیں اور شوہر کے بھائی بہن کو اپنے بھائی بہن سمجھنے کی تلقین کریں۔ان سب کے ساتھ دوستی اور پیار آپکی بیٹی کو نئے گھر میں اپنی جگہ بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ شوہر کے ساتھ رواداری اور محبت سے رہنے کا درس دیں۔لڑائی،جھگڑے اور غلط فیصلے میں اپنی بیٹی کا ساتھ ہرگز نہ دیں۔ ساتھ ہی اسے کفایت شعاری بھی سکھائیں کہ کفایت شعارلڑکی کبھی بھی اپنے خاوند کو شکایت کا موقع نہیں دیتی۔ اگر بیٹی کفایت شعار ہوگی تو اپنے گھر کو سوچ سمجھ کر لے کر چلے گی اور آنے والے وقت پر نظر رکھے گی گھرکے مسائل کو سمجھ کر درست فیصلے کرے گی بیٹی کواپنے جائز شوق کفایت کے ساتھ پورا کرنا سکھائیں اور اپنے شوہر کی آمدنی کے مطابق اسکے مسائل اور ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ہدایت کریں اگر وہ ان پر عمل پیرا ہو گی تو اسکے یہی معقول اقدام اسے سسرال میں عزت دلانے کا باعث بنیں گے۔
لڑکیاں چاہے پیشہ ورانہ زندگی میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرجائیں لیکن اگر وہ امور خانہ داری اور گھریلو معیشت سے واقف نہیں ہیں تو سمجھیں کہ ان کی تربیت میں بہت بڑی کمی رہ گئی ہے جس کا اندازہ والدین اوربالخصوص ماؤں کو بعد میں ہوتا ہے۔اس لیے ابتدائی عمر سے ہی بچیوں کو ان امور سے آ گاہی فراہم کی جائے تاکہ ان کی ازدواجی زندگی خوش گوار انداز سے گزرے۔ بیٹیوں کو احساس دلائیں کہ شادی کے بعد اپنے گھر کو پوری دیانت داری کے ساتھ سنبھالے،اولاد کی تربیت اور صالح معاشرہ کی تعمیر میں موثر کردار نبھانا اس کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ آپکو چاہئے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی میں سلیقہ اور ہنر مندی کا شوق بھی پیدا کریں تاکہ سسرال جانے کے بعدلڑ کی کو پریشانی کاسامنانہ کرناپڑے۔ سسرال میں جگہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں بس محبت اور سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے جو بیٹی کو اپنے والدین سے ملتی ہے تربیت کی صورت میں،کوشش کریں کہ اپنی بیٹی کی اچھی تربیت کریں تاکہ اسکے سسرال جانے کے بعد آپ بھی اپنی بیٹی کی طرح مطمئن اور پر سکون رہیں۔
نوشین انصاری
ممبئی
No comments:
Post a Comment