بچوں کی تعلیم و تر بیت میں والدین اور گھر کا سب سے اہم اور کلیدی رول ہو تا ہے۔والدین اور گھر ہر بچے کا اولین مدرسہ یا تر بیت گاہ ہوتے ہیں جہاں سے بچے نہ صرف ابتدائی اور بنیادی باتیں سیکھتے ہیں بلکہ عادات و اطوار اور رویہ بھی گھر ہی سے سیکھتے ہیں۔ والدین جتنا اسلامی علوم و تر بیت سے آگاہ ہوں گے اتنا ہی وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تر بیت پر توجہ دیں گے، جو والدین خود دین رحمت پرقائم و دائم ہوں وہ اپنے بچوں کو اسلامی خطوط پر بہترین تر بیت کر سکتے ہیں۔ کل کو یہی بچے بڑے ہو کر باطل پرستوں کے خیموں کو ہلا کر اپنی قوم و ملت اور تحریک کے لئے امید کی واحد کرن بنیں گے۔ مگر یہ طبقہ اسی وقت قوم و ملت کے لئے کار گر ثابت ہوسکتا ہے جب اس پر خصوصی تو جہ دی جائے۔ یہ طبقہ اسی وقت اپنی قوم کے لئے سایہ دار درخت بن سکتا ہے جب ہر والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے لئے اپنی صلاحیتوں اور ذرائع کو بروئے کار لانے کا تہیہ کر لے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہندوستانی معاشرہ اس وقت اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پچھلے ستر برسوں میں ہمارے سیاسی طبقے نے اپنے اختیارات، طاقت اور مال میں اضافے کے لیے مسلمانوں کو استعمال کیا ان کے بنیادی مسائل اور ضروریات پر توجہ دینے کی بجائے ہمیشہ جذباتی نعروں اور آسانی سے بک جانے والے بیانوں کو ہوا دی ہے۔ ان کا کام فقط قوم کو گم راہ کرنا ہے۔ الفاظ کے جادو کا استعمال کر کے حقائق پر جذباتی پٹیاں اس طرح رکھ دیں کہ قوم کی سوچنے سمجھنے کی باقی ماندہ حس بھی ختم ہو گئی۔ افسوس کہ مسلمان دینوی و عصری تعلیم و ترقی دونوں میں پیچھے ہے اور امت مسلمہ غیر تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے آج ہر میدان میں پیچھے ہے، خواہ وہ سیاست ہو یا تجارت یاپھر دوسرے میدان۔ حکومت ہند کی طرف سے کئے گئے متعدد سروے سے معلوم ہوتاہے کہ ہندوستانی مسلمان اس ملک کی سب سے پچھڑی ہوئی قوم ہے۔ رنگناتھ مشرا رپورٹ اورسچر کمیٹی رپورٹ جو یہ بتاتی ہے کہ مسلم قوم دلتوں سے بھی پیچھے ہے۔ مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں وہ خود ہی اپنی حالت بہتر نہیں بنانا چاہتے، وہ پارلیمنٹ میں اپنی کسی ڈیمانڈ یا ضرورت کے لیے دیگر جماعتوں کے محتاج ہیں۔ مطالبہ منوانا تو بعد کی بات ہے اگر آپ کی اپنی نمائندگی ہی نہیں ہے تو آپ مطالبہ کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ چند سال سے فرقہ پرستوں نے ہندوستان میں مسلم نسل کشی کا ننگا ناچ، مسلمانوں کی مسلم پرسنل لا میں مداخلت، کبھی دینی مدارس کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینا وغیرہ جیسے پروپیگنڈہ کر کے اسلام کی شبیہہ خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔
لہذا قوم کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لئے بچوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کی نفسیات سے آگاہ ہو۔ وہ بچوں کی عمر کے لحاظ سے ان کی ضرورتوں، ان کے درمیان پائے جانے والے فرق کو بہتر طریقہ سے سمجھ سکے۔ ہر بچہ اپنے آپ میں منفرد ہوتا ہے اس کی انفرادیت کو سمجھنا والدین کے لئے بہت ضروری ہے۔ بچے میں کیاتخلیقات ہے؟ اس کی دلچسپی کس چیز میں ہے؟ ان سب سے آگاہی ہونا ضروری ہے۔ساتھ ہی بچوں کی شروع دن سے ہی کردار و ذہن سازی کی جائے تاکہ یہ بچے آگے چل کر قوم کو ترقی کی راہ پر لے جائے اور معاشرہ میں موجود حائل رکاوٹوں کا خاتمہ کر سکے۔
اسلام اور مسلمانوں پر ہر زمانے میں حالات آئے ہیں اور یہ آتے رہیں گے لیکن مسلمان حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے یہ کسی بھی طرح مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہو سکتا۔ والدین اپنے بچوں کو اچھی سے اچھی تعلیم دلانے کے شوق میں یہ بھول جاتے ہیں اسے مسلمان بھی بنانا ہے۔ جس مذہب پر وہ پیدا ہوا ہے اس کے بھی حقوق ہے۔کوئی بچوں کو ڈاکٹری کی تعلیم دلوا رہا ہے تو کوئی وکالت پڑھا رہا ہے، کسی کو انجینئر بنانا ہے تو کسی کو ٹیچر یا تو کوئی بچوں کو بزنس بڑھانے کی تعلیم دلوا رہا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں میں قوم کا جذبہ پیدا کرے، انہیں اخلاقی ورحانی،سماجی اورفکری طور سے تیار کر یں تا کہ وہ اس ملک میں اپنے قوم کی قیادت کر سکیں۔ ہر والدین چاہتے ہیں کہ قوم میں پھر سے ایک صلاح الدین ایوبیؒ جیسا شخص پیدا ہو لیکن کوئی یہ نہیں چاہتا کہ ہم اپنے ہی بچوں میں ان جیسی صلاحیتیں پیدا کریں۔
علم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ جن کے حصول کے لئے تگ ودو کر نا ہر مسلم نوجوان پر فرض ہے۔ اسی علم کی بنیاد پر انسان صالح اور پرامن معاشرہ کی تعمیر کے لیے جدوجہد کر سکتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت بچے اور نوجوان جوعلم حاصل کر رہے ہیں وہ سیکولرزم اورمادیت پرستی کے زہر یلے اثرات سے مزین ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا قول ہے”اگر تم صرف اپنے لئے زندہ ہو تو اس کا مطلب یہی ہے کہ تم اپنی قوم کے لئے زندہ لاش ہو“۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علم کو اپنا صحیح مقام دیا جائے۔
اس لئے والدین بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات سے بھی آراستہ کریں۔ اس کے علاوہ قوم کے اہلِ فکر اور دانشوروں کی بھی ذمّہ داری ہے کہ وہ بچوں میں قوم کی فکری رہنمائی کرے۔کیونکہ سیاستدانوں کی نظر اگلے انتخابات پر ہوتی ہے، جب کہ اہلِ فکر و دانش کی نظر قوم کے مستقبل پر ہوتی ہے۔ جو تمام خود ساختہ دانشور جو اصل مسائل سے آنکھیں موڑ کر ادھر ادھر کی لن ترانیاں کرتے ہیں وہ قوم کے مجرم ہیں۔ اگر آج درست فیصلہ نہیں کیا گیا تو اس ملک میں سب لوگ مذہب، عقیدہ، فرقہ، زبان اور لسّانیت کی بنیاد پر استحصال اور امتیازی سلوک کا شکار ہوتے رہیں گے۔ بچوں کی صحیح تربیت، اصلاح اور ان کا صحیح استعمال ہی مستقبل میں کامیابی کی ضمانت ہے اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ بھی بنے گا۔
نوشین انصاری
ممبئی