Thursday, 25 August 2022

بچوں کی اصلاح ا ور ذہن سازی قوم کے لئے بے حد ضروری


بچوں کی تعلیم و تر بیت میں والدین اور گھر کا سب سے اہم اور کلیدی رول ہو تا ہے۔والدین اور گھر ہر بچے کا اولین مدرسہ یا تر بیت گاہ ہوتے ہیں جہاں سے بچے نہ صرف ابتدائی اور بنیادی باتیں سیکھتے ہیں بلکہ عادات و اطوار اور رویہ بھی گھر ہی سے سیکھتے ہیں۔ والدین جتنا اسلامی علوم و تر بیت سے آگاہ ہوں گے اتنا ہی وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تر بیت پر توجہ دیں گے، جو والدین خود دین رحمت پرقائم و دائم ہوں وہ اپنے بچوں کو اسلامی خطوط پر بہترین تر بیت کر سکتے ہیں۔ کل کو یہی بچے بڑے ہو کر باطل پرستوں کے خیموں کو ہلا کر اپنی قوم و ملت اور تحریک کے لئے امید کی واحد کرن بنیں گے۔ مگر یہ طبقہ اسی وقت قوم و ملت کے لئے کار گر ثابت ہوسکتا ہے جب اس پر خصوصی تو جہ دی جائے۔ یہ طبقہ اسی وقت اپنی قوم کے لئے سایہ دار درخت بن سکتا ہے جب ہر والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے لئے اپنی صلاحیتوں اور ذرائع کو بروئے کار لانے کا تہیہ کر لے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہندوستانی معاشرہ اس وقت اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پچھلے ستر برسوں میں ہمارے سیاسی طبقے نے اپنے اختیارات، طاقت اور مال میں اضافے کے لیے مسلمانوں کو استعمال کیا ان کے بنیادی مسائل اور ضروریات پر توجہ دینے کی بجائے ہمیشہ جذباتی نعروں اور آسانی سے بک جانے والے بیانوں کو ہوا دی ہے۔ ان کا کام فقط قوم کو گم راہ کرنا ہے۔ الفاظ کے جادو کا استعمال کر کے حقائق پر جذباتی پٹیاں اس طرح رکھ دیں کہ قوم کی سوچنے سمجھنے کی باقی ماندہ حس بھی ختم ہو گئی۔ افسوس کہ مسلمان دینوی و عصری تعلیم و ترقی دونوں میں پیچھے ہے اور امت مسلمہ غیر تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے آج ہر میدان میں پیچھے ہے، خواہ وہ سیاست ہو یا تجارت یاپھر دوسرے میدان۔ حکومت ہند کی طرف سے کئے گئے متعدد سروے سے معلوم ہوتاہے کہ ہندوستانی مسلمان اس ملک کی سب سے پچھڑی ہوئی قوم ہے۔ رنگناتھ مشرا رپورٹ اورسچر کمیٹی رپورٹ جو یہ بتاتی ہے کہ مسلم قوم دلتوں سے بھی پیچھے ہے۔ مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں وہ خود ہی اپنی حالت بہتر نہیں بنانا چاہتے، وہ پارلیمنٹ میں اپنی کسی ڈیمانڈ یا ضرورت کے لیے دیگر جماعتوں کے محتاج ہیں۔ مطالبہ منوانا تو بعد کی بات ہے اگر آپ کی اپنی نمائندگی ہی نہیں ہے تو آپ مطالبہ کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ چند سال سے فرقہ پرستوں نے ہندوستان میں مسلم نسل کشی کا ننگا ناچ، مسلمانوں کی مسلم پرسنل لا میں مداخلت، کبھی دینی مدارس کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینا وغیرہ جیسے پروپیگنڈہ کر کے اسلام کی شبیہہ خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔

لہذا قوم کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لئے بچوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کی نفسیات سے آگاہ ہو۔ وہ بچوں کی عمر کے لحاظ سے ان کی ضرورتوں، ان کے درمیان پائے جانے والے فرق کو بہتر طریقہ سے سمجھ سکے۔ ہر بچہ اپنے آپ میں منفرد ہوتا ہے اس کی انفرادیت کو سمجھنا والدین کے لئے بہت ضروری ہے۔ بچے میں کیاتخلیقات ہے؟ اس کی دلچسپی کس چیز میں ہے؟ ان سب سے آگاہی ہونا ضروری ہے۔ساتھ ہی بچوں کی شروع دن سے ہی کردار و ذہن سازی کی جائے تاکہ یہ بچے آگے چل کر قوم کو ترقی کی راہ پر لے جائے اور معاشرہ میں موجود حائل رکاوٹوں کا خاتمہ کر سکے۔ 

اسلام اور مسلمانوں پر ہر زمانے میں حالات آئے ہیں اور یہ آتے رہیں گے لیکن مسلمان حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے یہ کسی بھی طرح مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہو سکتا۔ والدین اپنے بچوں کو اچھی سے اچھی تعلیم دلانے کے شوق میں یہ بھول جاتے ہیں اسے مسلمان بھی بنانا ہے۔ جس مذہب پر وہ پیدا ہوا ہے اس کے بھی حقوق ہے۔کوئی بچوں کو ڈاکٹری کی تعلیم دلوا رہا ہے تو کوئی وکالت پڑھا رہا ہے، کسی کو انجینئر بنانا ہے تو کسی کو ٹیچر یا تو کوئی بچوں کو بزنس بڑھانے کی تعلیم دلوا رہا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں میں قوم کا جذبہ پیدا کرے، انہیں اخلاقی ورحانی،سماجی اورفکری طور سے تیار کر یں تا کہ وہ اس ملک میں اپنے قوم کی قیادت کر سکیں۔ ہر والدین چاہتے ہیں کہ قوم میں پھر سے ایک صلاح الدین ایوبیؒ جیسا شخص پیدا ہو لیکن کوئی یہ نہیں چاہتا کہ ہم اپنے ہی بچوں میں ان جیسی صلاحیتیں پیدا کریں۔ 

علم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ جن کے حصول کے لئے تگ ودو کر نا ہر مسلم نوجوان پر فرض ہے۔ اسی علم کی بنیاد پر انسان صالح اور پرامن معاشرہ کی تعمیر کے لیے جدوجہد کر سکتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت بچے اور نوجوان جوعلم حاصل کر رہے ہیں وہ سیکولرزم اورمادیت پرستی کے زہر یلے اثرات سے مزین ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا قول ہے”اگر تم صرف اپنے لئے زندہ ہو تو اس کا مطلب یہی ہے کہ تم اپنی قوم کے لئے زندہ لاش ہو“۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علم کو اپنا صحیح مقام دیا جائے۔

اس لئے  والدین بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات سے بھی آراستہ کریں۔ اس کے علاوہ قوم کے اہلِ فکر اور دانشوروں کی بھی ذمّہ داری ہے کہ وہ بچوں میں قوم کی فکری رہنمائی کرے۔کیونکہ سیاستدانوں کی نظر اگلے انتخابات پر ہوتی ہے، جب کہ اہلِ فکر و دانش کی نظر قوم کے مستقبل پر ہوتی ہے۔ جو تمام خود ساختہ دانشور جو اصل مسائل سے آنکھیں موڑ کر ادھر ادھر کی لن ترانیاں کرتے ہیں وہ قوم کے مجرم ہیں۔ اگر آج درست فیصلہ نہیں کیا گیا تو اس ملک میں سب لوگ مذہب، عقیدہ، فرقہ، زبان اور لسّانیت کی بنیاد پر استحصال اور امتیازی سلوک کا شکار ہوتے رہیں گے۔  بچوں کی صحیح تربیت، اصلاح اور ان کا صحیح استعمال ہی مستقبل میں کامیابی کی ضمانت ہے اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ بھی بنے گا۔

نوشین انصاری

ممبئی

Tuesday, 16 August 2022

والدین کی خدمت اولاد پر فرض بھی اور قرض بھی


ماں باپ کی خدمت کو جہاد پر ترجیح دی گئی ہے۔ اسلام اولاد کو حکم دیتا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نرمی و تواضع، خاکساری و انکساری سے پیش آئے، ان کے ساتھ احترام و محبت کا بر تاؤ کرے۔جو لوگ والدین کی خدمت سے کنارہ کشی کرتے ہیں، وہ بہت ہی بدبخت ہیں، لیکن اس میں کچھ قصور والدین کا بھی ہے، وہ بچوں کو مغربی تعلیم و تربیت دیتے ہیں، دِینی تعلیم و تربیت سے محروم رکھتے ہیں، نتیجتاً اولاد بڑے ہوکر مغربی عادات و اطوار کو اپناتی ہے، اور سب جانتے ہیں کہ مغرب میں والدین کی خدمت کا کوئی تصور نہیں، اولاد جوان ہوکر خودسر ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھا دیا ہے کہ ہم بچپن میں کس طرح بے یار ومددگار تھے والدین نے ہمیں پالا پوسہ اور پروان چڑھایا، ہمارے والدین ہماری ہر خواہش پوری کرتے تھے مکمل خلوص اور محبت کے ساتھ، اسی لئے اولاد پر فرض ہے کہ وہ والدین کا احترام کرے اور ان سے اچھا سلوک کرے۔ اگرچہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب واحترام کرنا چاہئے لیکن ان کی طرف زیادہ تر توجہ اس وقت ہونی چاہئے جب وہ بوڑھے ہوجائیں کیونکہ وہ بھی اسی طرح بے یارو مددگار ہوجاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں تھے۔ مگر آج کل مسلم معاشرہ میں اسلامی طرز و تہذیب و ادب کے خلاف مغربی تہذیب و اطوار کا بول بالاہے۔ اولاد کی پیدائش کے موقع پر والدین خوشی و مسرت کے عالم میں اتنا بے خود ہوجاتے ہیں کہ انہیں حدود شرع کی پامالی کا کوئی خوف نہیں ہوتا، اولاد کا استقبال اسلامی طرز پر اذان و دعاؤں سے نہیں بلکہ اس کی جگہ ڈھول باجے سے کرتے ہیں۔ غور کیجئے اولاد کا ذہن ایک لوح سادہ کی مانند ہوتا ہے۔ اس پر جس طرح کی تعلیم و تربیت، ادب و تہذیب کی تحریر لکھی جائیں گی اسی انداز میں اولاد پروان چڑھے گی۔ آپ کی تہذیبی و ثقافتی روایات مذہبی تعلیمات اور پیغام توحید کو زندہ تابندہ رکھنے میں اولاد اہم رول ادا کرتی ہے اور مومن نیک اورصالح اولاد کی تمنا اسی لئے کرتا ہے کہ اس کے بعد اس کے پیغام کو زندہ رکھ سکے۔ 

ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے میں روز کی طرح اپنی دھن میں مگن بس اسٹاپ پر جا رہی تھی کہ اچانک ایک آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ”بیٹی کہاں جا رہی ہو؟“ اگر آپ کو راستے میں اچانک کسی ایسے سوال کا سامنا ہو جائے، تو آپ بھی میری طرح پہلے سٹپٹائیں گے۔ نحیف زدہ سی آواز نے میرے بڑھتے قدم روک دیے۔قریب ہی ایک ضعیف العمر خاتون کھڑی تھی۔ چونکہ میری اور ان کی سمت علیحدہ تھی تو انہوں نے کہہ دیا کہ بیٹی جاؤ میں کسی اور کو دیکھ لیتی ہوں مگر ان کے لہجے کی مایوسی نے مجبور کیا تو ان سے پوچھا کہ آپ کو کہاں جانا ہے، میں چھوڑ دیتی ہوں، مجھے کوئی جلدی نہیں۔ اس پر انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ احسان مندی اور تشکر سے دیکھا تو شرمندگی سی محسوس ہوئی۔ ان کا ہاتھ تھام کر میں ان کی سہولت کے مطابق ہی چلنے لگی۔ رندھی آواز میں انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں بیٹا بہو پوتے پوتیاں سب ہیں لیکن بڑھاپے میں کون پوچھتا ہے، بس موت کے انتظار میں جی رہے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ پھر بے آواز رونے لگیں۔ میری مزید کچھ بولنے یا پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ان کو مطلوبہ کلینک کے پتہ پر پہنچا کر میں لوٹ گئی اور سارا راستہ اس ضعیف العمر خاتون کے گھر والوں کے رویے کے بارے میں سوچتی رہی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی ایک گھر کی کہانی نہیں ہے، کم و بیش ہمارے معاشرے کا مجموعی رویہ ایسی ہی تصویر دکھا رہا ہے۔ لوگوں نے مغرب کی طرح اولڈ ہاؤس تعمیر نہیں کیے مگر کیا اس عورت کا گھر اولڈ ہاؤس کا عملی نمونہ نہیں جہاں قسمت نے بیٹا تو دیا لیکن اس نے اپنے والدین   کی قدر و اہمیت نہ جانی اور اس مجبوروبے بس ماں کو راہ چلتے مسافروں سے مدد کی درخواست کرنا پڑا۔ 

والدین سے بد سلوکی،بد زبانی،طعنے دل دکھانے والی باتیں تو ایک معمول بن چکا ہے۔ اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے ان کے پاس ماں باپ کے پاس بیٹھنے،باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے۔ والدین کو ان کی سگی اولاد یا تو بوجھ سمجھتی ہے یا پھر ان کے لیے گھر چھوٹے ہوتے ہیں۔ کہیں دل اتنے چھوٹے ہوگئے ہیں کہ سگی اولاد اپنے والدین کے لیے ایک مہینے تمہارے گھر، ایک مہینے میرے گھر، پر بحث ہونے لگی ہے اور اگر والدین بڑھاپے کے باعث کسی بیماری میں مبتلا ہوگئے تو بیٹا یا بیٹی، والدین کے جراثیم سے اپنے بچوں کو بچانے لگیں کہ والدین خود دور رہیں تاکہ ان کے بچے صحت مند رہیں۔ حیرت کا مقام ہے آج اولاد کے پاس والدین کے لئے وقت نہیں ہے، جنہوں نے اس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا؟ ”کیا ہمارے بچے ہمیں قبر تک سہارا نہیں دے سکتے؟ کیا اولاد کی اچھی پرورش نہ کرنا ہمارا جرم ہے؟ اولاد یہ کیوں سمجھتی ہے کہ ماں باپ کو ان کی ضرورت نہیں؟ یہ ایسے سوال ہیں جو ہر وہ شخص کرتا ہے جس کی اولاد اس کی عزت نہیں کرتی یا اولاد نے والدین کو گھر سے دربدر کردیا ہے“۔ بزرگ خاندان کو قائم رکھتے ہیں اور بزرگوں کی دعاؤں سے گھر آباد رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ والدین تو دس بچوں کو پال سکتے ہیں مگر دس بچے ایک ماں اور باپ کو نہیں پال سکتے۔ گھریلو ناچاقیاں اولاد کے والدین سے جھگڑے اس معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ ان تمام جھگڑوں کی اصل وجہ والدین کی بچوں کو نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے مطابق تربیت نہ کرنا ہے کیونکہ شروع دن سے والدین یہ سوچتے ہیں کہ بچوں کا مستقبل اچھا ہوجائے ان کی آمدنی اچھی ہوجائے۔ معاشرے میں ان کا ایک مقام بن جائے۔ ان تمام کاموں کی وجہ سے والدین بچوں کی دینی تربیت نہیں کرپاتے اور نتیجہ۔۔۔۔۔؟؟ آپ آج معاشرے کے اندر دیکھیں کہ کس طرح اولاد ماں باپ کی نافرمانی کررہی ہے۔

والدین کا بڑا مقام ہے اور یہ مقام اللہ نے خودطے کر دیا ہے۔ والدین حسن سلوک و آداب واحترام کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔ والدین کے جواحسانات اولاد پر ہیں،وہ تمام عمر کی خدمت سے بھی ادا نہیں ہو سکتے۔ اگر کوئی تنگ دل شخص والدین کے حقوق ادا نہیں کرتا اور انہیں دُکھ دیتا ہے تو وہ درحقیقت ایمان کی حقیقی دولت سے محروم ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اولاد اپنے والدین سے اس قدر لا پراوئی اور بے حسی کا رویہ کیوں ر کھتے ہیں شائدوہ بھول جا تے ہیں کہ ہم نے بھی کبھی بوڑھا ہو نا ہے۔ وقت جس تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم ماہ سال کو گن بھی نہیں پاتے کہ کیلنڈر تبدیل ہو جاتے ہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بے بسی کا یہ دور جلد ہم سب پر بھی آنے والا ہے۔ خدارا اپنے والدین سے اچھے برتاؤ کی ایسی مثالیں اپنے بچوں کے سامنے پیش کر یں کہ وہ والدین  کی خدمت کو زندگی کالازم و ملزوم حصہ سمجھنے لگے آج اگر ہم اپنے والدین کو یرغمال بنائیں گے تو کل تا وان بھی تو ہمیں ادا کرنا ہو گا یہ تو سب جا نتے ہیں کہ جیسا کریں گے ویسا ہی بھریں گے۔ لیکن محض باتوں سے تو کبھی بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، معاشرے کی مثبت تعمیر کے لیے عمل کی راہیں نکالنی ہی پڑتی ہیں۔

نوشین انصاری


Sunday, 14 August 2022

خواتین کا کردار معاشرے کی ترقی میں اہمیت کا حامل ہے


معاشرے میں خواتین اہمیت کا مقام رکھتی ہیں۔ عورت ماں،بیٹی،بیوی کے روپ میں اللہ کی طرف سے مرد کیلئے نعمت بناکر بھیجی گئی ہے۔ ماں کی صورت میں بچے، بیٹی کی صورت میں باپ اور بیوی کی صورت میں شوہر کی زندگی بھر خدمت کرتی ہے غرض کہ دین اسلام نے خواتین کو جو عزت مرتبہ دیا ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں ہے۔ عورت درحقیقت وہ عظیم ہستی ہے جو معاشرے کی پرورش وتربیت کرتی ہے۔ ملک کی ترقی میں خواتین کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں آج ہر شعبے میں خواتین ملکی ترقی اور خوشحالی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔ دور بدلے، تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ان تبدیلیوں کا اثر جہاں سماج کے ہر طبقے پر پڑا تو سماج کا اہم حصہ خواتین اس سے کیسے مستثنی رہ سکتی تھیں۔انہی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے کہ گھروں میں کھانا پکانے اور سلائی کڑھائی میں مصروف رہنے والی خواتین آج معلمہ، ڈاکٹر اور انجینئر ہے اور آسمانوں میں جہاز اُڑانے سے لے کر چھوٹے کاروبار تک تقریباً تمام شعبہ ہائے جات میں اپنی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں وجود ِزن سے ہے تصویر ِکائنات میں رنگ۔۔۔ اور کیوں نہ ہو؟ خواتین دنیا کی آبادی کا تقریباً نصف ہیں اور گھریلو ذمہ داریوں سے لے کر زندگی کے لگ بھگ ہر شعبے میں اپنی شناخت بنا رہی ہیں۔

حالانکہ پہلے زمانے میں خواتین پر زیادہ ذمہ داریاں تھیں اور وہ بہت مصروف رہتی تھیں۔ جب کہ آج کے دور میں خواتین پر اتنی ذمہ داریاں نہیں ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مشینی دور نے جہاں خواتین کو بہت سی سہولیات مہیا کی ہیں جس کی وجہ سے ان کے کچن کے کام آسان ہو گئے،جیسے کپڑوں کی دھلائی، گھر کی صفائی، ان سارے کاموں میں بھی نوکرانیوں اور مشینوں کی سہولیات میسر ہیں وہیں ان پر کچھ دوسری ذمہ داریاں آ گئی ہیں۔ بچوں کی پڑھائی، ان کا ہوم ورک کرانا، اسکول تک چھوڑ کر آنا، لے کر آنا وغیرہ۔اس کے علاوہ ملازمت پیشہ خواتین بھی ہے جو ملازمت کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمہ داریوں کوبھی بخوبی حسن نبھا رہی ہے۔ غرضیکہ آج کے دور کی خواتین معاشی خود کفالت میں کسی نہ کسی طرح سے مردوں کا بھر پور ساتھ دے رہی ہے۔ عورت میں قدرتی طور پر وہ خصوصیات پائی جاتی ہے جو نسلوں کی آبیاری کرتی ہے۔ گھر اور معاشرے میں با عزت مقام پانا عورت کاحق ہے۔ خواتین کو معاشی،سماجی اور سیاسی طور پر مضبوط بنانا ان کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرنا اور انہیں کسی امتیاز کے بغیر یکساں مواقع فراہم کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ انہیں یہ سمجھانا ہو گا کہ ایک اچھی شخصیت کی تعمیر معاشرتی ترقی کے لئے کیا معنی رکھتی ہے۔ موجودہ دور کے حالات کے پیش نظر گھریلو اور ملکی نظام کو چلانے کے لیے خواتین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جانا چاہئے۔اس کے علاوہ تعلیم برائے روزگار اور تربیت کو ہر سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ بالخصوص لڑکیوں کو عملی زندگی کے مطابق کیرئیر کونسلنگ فراہم کی جائے۔ تربیتی اداروں خوا تین کو بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار فراہم ہو۔ ایسی خواتین کی بھی کاؤنسلنگ کی جائے جو مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ ایسا نظام بھی تیار کیا جائے جہاں ایسی خواتین سے بآسانی رابطہ قائم کیا جا سکے۔

خواتین کا کردارمعاشرے کی تعمیرو تربیت اور ترقی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ سچ ہے کہ دنیا میں آج خواتین گھر سے باہر نکل کر اپنے پسند کے شعبوں میں مستعدی سے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ اس لئے پڑھی لکھی اور باشعور خواتین کو عملی سیاست میں شامل ہوکر معاشرے سے پسماندہ سوچ اور رویوں کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ خواتین کی جدوجہد ہمارے معاشرے میں بہت اہم ہے۔ اگر ہم بحیثیت فرد یا بحیثیت گروہ کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی کن کمزوریوں کو دُور کرنا ہو گا اور کن خوبیوں کو بہتری کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔ بالخصوص عورت کے حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس معاشرے کے حقائق کیا ہیں؟ کون سے مظالم ایسے ہیں، جن کو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اور کون سے حقائق ایسے ہیں جو کسی اور مسئلے کی پیداوار ہیں، ان کو کیسے حل کیا جائے؟ یہاں بھی رد عمل کے بجاے مثبت اور فعال سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔

اگر خواتین معاشی خود کفالت کی جانب اپنے قدم بڑھائیں گی  تو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ اورحضرت فاطمہ ؓ کامعاشرے میں کردار خواتین کیلئے مشعل راہ ہے خواتین کو چاہیے کہ وہ ان کی تعلیمات اور ان کے سنہری اصولوں پر کاربند رہ کر ملک وقوم کی بہترین رہنمائی کریں۔ 

نوشین انصاری

ممبئی

بیٹیوں کو تعلیم کے ساتھ امور خانہ داری میں بھی ماہر کریں


ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بنتا جارہا ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کو تعلیم تو دلارہی ہیں مگر انھیں امور خانہ داری سے دور رکھنے کی سعی بھی کرتی ہیں۔ باورچی خانے میں اکثر مائیں سارا دن کام کرتی ہیں اور بیٹیاں آرام طلبی کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ بچیوں کو اگر بچپن سے ہی چھوٹے چھوٹے کام کرنا سکھائے جائیں تو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں باورچی خانے میں سلیقے سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے گھریلو امور میں بھی دل چسپی پیدا ہوجائے گی۔ ماؤں کو چاہیے کہ باورچی خانے میں کام کرتے ہوئے بیٹیوں کو بھی ساتھ رکھیں اور ان کے ذمے چھوٹے چھوٹے کام لگانا شروع کردیں۔ 

عموماً مائیں اپنی بیٹیوں سے یہ سوچ کر کام نہیں کرواتی کہ انھیں سسرال جاکر یہی سب کرنا ہے یا جب خود پر پڑے گی سب کر لے گی؟ کیا ماؤں کا یہ رجحان صحیح ہے؟ کیا واقعی وقت پڑنے پر لڑکی چابی کی گڑیا بن کر خود بخود کام کرنے لگ جائے گی؟نہیں۔! اسے ماں باپ کے گھر سے ہی امور خانہ داری نبھانے اور سنبھالنے کا سلیقہ آنا چاہئے۔ بیٹیاں جب سسرال جاتی ہے توبعد میں ایک ساتھ کئی ذمہ داریاں اس کے لئے پریشانی کاباعث بن جاتی ہے ہر روز نت نئے مسئلوں میں گھری رہتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے گھروں میں لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں یا پھر لڑکیاں الگ رہنا پسند کرتی ہے جس سے گھروں کا سکون تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ ایسے نازک حالات میں والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت پر بھی خاص توجہ دیں، صرف تعلیم دلانا ہی کافی نہیں، بلکہ تربیت بھی ضروری ہے۔ والدین اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ گھر سلیقے اور قرینے سے چلائے جاتے ہیں نہ کہ ڈگریوں سے۔ بیٹی تو اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور بیٹی کے دم سے ہی گھر میں رونق ہوتی ہے۔ والدین بیٹیوں کواپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، نازوں سے پالتے ہیں اور زمانے کے سردوگرم سے بچاتے ہیں لیکن شادی کے بعد اگر بیٹی خوش نہ ہو تو والدین بے بس ہوجاتے ہیں۔ لڑکی کے لئے سسرال کا مطلب نیا گھر اور نئے لوگ ہوتے ہیں جسمیں جگہ بنانا یقیناًلڑکی کے لئے مشکل کام ہوتاہے۔

معاشرے میں اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو اچھی سے اچھی تعلیم تو دلوا دیتے ہیں لیکن امور خانہ داری سے دور رہنے کی سعی بھی کرتے ہیں۔ آج کی لڑکیاں تعلیم یافتہ تو ہوتی ہیں لیکن تربیت یافتہ بہت ہی کم۔ تعلیم وتربیت دونوں الگ الگ جز ہیں۔ دراصل ماں باپ کی بھی کچھ خامیاں ہیں جو اپنی بیٹیوں کو یہ نہیں سکھا رہے ہیں کہ انہوں نے اگر دوسرے گھر جانا ہے تو کیا کرنا ہے؟ نہ اسے کھانا بنانے ککا طریقہ بتلاتے ہیں نہ صفائی ستھرائی کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ بلکہ یو ں کہتے ہیں خالی میری بچی پڑھے گی۔ بھلا ہماری بیٹی کے پاس وقت کہاں کہ وہ امور خانہ داری سنبھالے، وہ تو بس صرف اور صرف اپنی تعلیم پر ہی توجہ دے اور دل لگا کر تعلیم حاصل کرے۔ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ اپنی بیٹی کو اس قدر پینڈو اورکند ذہن بنا رکھا ہے کہ جدید دور کے تقاضوں سے آشنا ہی نہیں؟ کون سا فیشن چل رہا ہے اور کون سا برینڈ اسے خریدنا ہے جو لوگوں میں بہت ہی مقبول ہے۔ یہ کوئی بہت ہی باعث فخر و مسرت کی بات نہیں ہے ہاں لیکن یہ دکھ کی بات ضرور ہے کہ آپ کی بیٹی کو نا چائے بنانی آتی ہے اور نہ مہمانوں کی آؤ بھگت کرنا۔ بات یہ نہیں کہ فیشن ٹرینڈز اور نت نئے برینڈز سے آشنائی اور ان کی خریداری بری بات ہے، اچھی بات ہے، انسان کو جدت پسند ہونا چاہئے اور اچھا پہننا اوڑھنا چاہئے لیکن صرف اچھا پہننا اور اچھا دکھنا کافی نہیں ہوتا۔ ماؤں کو بیٹیوں کو پیار اور سخت پرورش دونوں طریقوں سے پروان چڑھانا چاہیے کیوں کہ“آپ کی بیٹی کا کل کسی نے نہیں دیکھا۔

تاہم اگر آپ اپنی بیٹی کی تربیت اس اندا ز سے کریں کہ وہ آگے جاکر پریشان ہونے کے بجائے عقلمندی سے فیصلے کرے تو اسمیں کوئی شک نہیں کہ وہ سسرال میں اپنی جگہ بآسانی بناسکتی ہے۔ بیٹیوں کو سسرال میں اپنی جگہ پیار محبت سے بنانا سکھائیں دل محبت اور خدمت سے جیتے جاتے ہیں۔ سسرالی رشتوں کا احترام بہت ضروری ہے اگر رشتوں کالحاظ نہیں ہوتاتو دلوں میں کدورتیں بڑھ جاتی ہیں ساس سسر کو اپنے والدین جیسا سمجھنے کا درس دیں اور شوہر کے بھائی بہن کو اپنے بھائی بہن سمجھنے کی تلقین کریں۔ان سب کے ساتھ دوستی اور پیار آپکی بیٹی کو نئے گھر میں اپنی جگہ بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ شوہر کے ساتھ رواداری اور محبت سے رہنے کا درس دیں۔لڑائی،جھگڑے اور غلط فیصلے میں اپنی بیٹی کا ساتھ ہرگز نہ دیں۔ ساتھ ہی اسے کفایت شعاری بھی سکھائیں کہ کفایت شعارلڑکی کبھی بھی اپنے خاوند کو شکایت کا موقع نہیں دیتی۔ اگر بیٹی کفایت شعار ہوگی تو اپنے گھر کو سوچ سمجھ کر لے کر چلے گی اور آنے والے وقت پر نظر رکھے گی گھرکے مسائل کو سمجھ کر درست فیصلے کرے گی بیٹی کواپنے جائز شوق کفایت کے ساتھ پورا کرنا سکھائیں اور اپنے شوہر کی آمدنی کے مطابق اسکے مسائل اور ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ہدایت کریں اگر وہ ان پر عمل پیرا ہو گی تو اسکے یہی معقول اقدام اسے سسرال میں عزت دلانے کا باعث بنیں گے۔

لڑکیاں چاہے پیشہ ورانہ زندگی میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرجائیں لیکن اگر وہ امور خانہ داری اور گھریلو معیشت سے واقف نہیں ہیں تو سمجھیں کہ ان کی تربیت میں بہت بڑی کمی رہ گئی ہے جس کا اندازہ والدین اوربالخصوص ماؤں کو بعد میں ہوتا ہے۔اس لیے ابتدائی عمر سے ہی بچیوں کو ان امور سے آ گاہی فراہم کی جائے تاکہ ان کی ازدواجی زندگی خوش گوار انداز سے گزرے۔ بیٹیوں کو احساس دلائیں کہ شادی کے بعد اپنے گھر کو پوری دیانت داری کے ساتھ سنبھالے،اولاد کی تربیت اور صالح معاشرہ کی تعمیر میں موثر کردار نبھانا اس کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ آپکو چاہئے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی میں سلیقہ اور ہنر مندی کا شوق بھی پیدا کریں تاکہ سسرال جانے کے بعدلڑ کی کو پریشانی کاسامنانہ کرناپڑے۔ سسرال میں جگہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں بس محبت اور سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے جو بیٹی کو اپنے والدین سے ملتی ہے تربیت کی صورت میں،کوشش کریں کہ اپنی بیٹی کی اچھی تربیت کریں تاکہ اسکے سسرال جانے کے بعد آپ بھی اپنی بیٹی کی طرح مطمئن اور پر سکون رہیں۔

نوشین انصاری

ممبئی

 اولاد کی خوش بختی ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کرے، وہ دُنیا سے رخصت ہو جائیں تو ان کے لئے مغفرت کی دعا کرے ،اولاد کے نیک اعمال والدین کی بخشش اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بنتے ہیں۔والدین کی رضامندی میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہوتی ہے۔

Saturday, 13 August 2022

مَشْعَلِ راہ

مَشْعَلِ راہ 

خواتین کا دائرہ عمل ان کے گھر کی چار دیواری تک ہی محدود نہیں۔آج کی عورت اور باہر دونوں جگہ کامیابی سے آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کی عورت خود اعتماد ہے وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ گھر ہو یا باہر آگے بڑھنے کیلئے خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ آج کی غیر یقینی اور ہنگامہ بھری زندگی میں کوئی بھی غیر متوقع صورتحال سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ زندگی داؤ پیچ سے نبرد آزما ہونے کیلئے خود اعتمادی معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔گھر میں رہنے والی عورتوں میں جب تک خود اعتمادی نہیں ہو گی تب تک اس گھر کے افراد خاص کر بچے خود کو بھی غیر محفوظ محسوس کریں گے۔کیونکہ بچوں کی تربیت میں ایک پُراعتماد ماں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے اس کے علاوہ آج کل گھریلو زندگی کے ساتھ خواتین ملازمت بھی کر رہی ہیں۔

تاریخ گواہ رہی ہے کہ جس دور میں عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ خود اعتمادی سے کام کیا ہے۔وہاں عزم و حوصلے اور طاقت و بہادری کے ناقابل فراموش کارنامے انجام دیئے ہیں۔ خواتین میں خود اعتمادی کے حصول کا انحصار ان کے خاندانی پس منظر اور گھریلو تربیت پر بھی ہوتا ہے ایسے میں تعلیم انہیں زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے کا سلیقہ دیتی ہے۔اور حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت و برداشت بڑھا دیتی ہے لیکن آج بھی ایسی بہت سی خواتین ہیں خاص کر گھریلو خواتین جو اپنے فیصلوں اور کاموں میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں اس کے لئے سب سے ضروری ہے کہ وہ خود اپنے اندر کا حوصلہ بڑھائیں۔

اس کیلئے چند مفید ہدایات مندرجہ ذیل ہیں۔

اپنی شخصیت میں خود اعتمادی لانے کیلئے کسی معروف باوقار شخصیت کو اپنا نمونہ تسلیم کریں اور اس کی زندگی کے تجربات سے سبق سیکھیں۔اس سے مثبت تبدیلی آئے گی،خود اعتمادی اور ہمت کا جذبہ پروان چڑھے گا۔

ہمیشہ اپنی مثبت سوچ رکھنے کی کوشش کریں۔اپنی ناکامیوں کو نظر انداز کرکے کامیاب صلاحیتوں کو اجاگر کریں مثبت سوچ سے اچھا بننے کی لگن پیدا ہو گی۔

اپنے حالات،خیالات،نظریات پر نظر رکھتے ہوئے مستقبل کے حالات کے لئے خود کو تیار رکھیں یوں ایک دن خود اعتمادی خود شخصیت کا حصہ بن جائے گی۔

کسی سے بات کرتے ہوئے اس سے نظر ملا کر بات کریں اور اپنی آواز کو واضح اور صاف الفاظ استعمال کریں اور ماحول کے مطابق آواز کم یا زیادہ رکھیں۔

نفسیاتی مسائل بھی خود اعتمادی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اس لئے خود کو اعصابی طور پر خاص طور پر مضبوط رکھیں۔

اگر کہیں کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا حد سے زیادہ اثر نہ لیں۔چونکہ انسان خطا کا پتلا ہے چنانچہ خود پر اعتماد رکھتے ہوئے اس غلطی سے سیکھیں تاکہ اگلی دفعہ اس ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

جو خواتین خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہوتی ہیں وہ ناصرف انفرادی طور پر اپنی زندگی میں بلکہ اجتماعی طور پر ملک کی ترقی میں بھی اہم سنگ میل ثابت ہوتی ہیں۔

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک مثالی نہیں بن سکتا جب تک وہاں کی خواتین میں خود اعتمادی،خود کفالتی اور خود انحصاری کا احساس نہ ہو۔آج کی خواتین نہ صرف گھر کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں بلکہ بہت ساری مختلف شعبوں میں بھی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔جس کیلئے خود اعتمادی نہایت ضروری ہے جو اپنے آپ پر اور اپنی صلاحیتوں پر یقین کرکے کوشش محنت سے حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ اگر وہ خود اعتمادی سے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گی تو وہ ناصرف وہ اپنی زندگی سنوار لیں گی بلکہ دوسرے آنے والوں کیلئے بھی مشعل راہ ثابت ہوں گی۔

نوشین انصاری

ممبئی

بول کے لب آزاد ہیں تیرے

ایک پیغام خواتین کے نام

بول کے لب آزاد ہیں تیرے

عورت کو محبت نہیں عزت و تحفظ چاہئے، شاید یہ سمجھنے کی ضرورت ہے

عورت صنف نازک ہے، عورت چھپانے والی چیز ہے عورت کسی بھی ریاست کی آبادی میں اضافے کی وجہ ہے۔ اسلام سے پہلے عورت کو کوئی مقام حاصل نہیں تھا۔ لڑکیوں  کے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے آکر عورت کو وہ مقام دیا جو کوئی بھی مذہب عورت کو نہ دے سکا حتیٰ کہ وراثت میں بھی حصہ کی حقدار ٹھہرائی گئی۔ ’عورت‘ اس دنیا میں اسے عزت کے تمام تر رتبے عطا کئے گئے ہیں۔ بیٹی، بہن، بیوی اور سب سے بڑھ کر اسے ماں کا رشتہ عطا کر کے پروردگار عالم نے جنت کو اس کے پیروں تلے قرار دیا کہ انسان اس کی خدمت کر کے جنت کو اپنے لیے واجب کرے۔

حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہی ہے عورت اب بھی مرد کے جبر کا شکار ہے۔ تعلیم اس کے لئے لازم نہیں سمجھی جاتی کہ اس نے کون سا نوکری کرنا ہے لیکن یہ نہیں سوچا جاتا کہ عورت تعلیم حاصل کرے گی تو بہتر طریقے سے بچوں کی پرورش کرے گی۔ بہتر طور طریقے سے گھر کا نظام چلائے گی۔ مرد کے اس معاشرے میں عورت بہت کمزور ہے۔ عورت کی کوئی عزت نہیں۔ ایسا کیوں؟ کیونکہ عورت نے کبھی اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھائی ہر ظلم و تشدد کا نشانہ بنتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں میں خود اعتمادی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ آج اگر لڑکیوں میں خود اعتمادی نہ ہو گی تو آئندہ آنے والی نسل کی تربیت کس طرح کریں گی؟  

’خواتین کے حقوق‘ یہ ایک ایسا نعرہ ہے جسے استعمال کرتے ہوئے کوئی سیاستداں ہو، اینکر پرسن ہو، این جی اوز ہوں، مقبولیت حاصل کرسکتا ہے۔ خواتین کے حقوق کا نعرہ لگا کر آگے بڑھنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے اور مقصد سیاسی ہو یا سماجی یہ نعرہ بہت کام آتا ہے۔ آج ملک بھر میں عالمی یوم خواتین بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے،فنکشنز کئے جاتے ہیں زبانی بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، مٹینگیں کی جاتی ہیں، اجلاس کئے جاتے ہیں۔ مگر نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ حقوق کس کو ملتے ہیں؟ تحفظ کس کو ملتا ہے؟ انصاف کس کو مہیا کیا جاتا ہے؟ معاشرے کے حالات کہاں تک بدلے ہیں؟ ایسا کچھ نہیں ہے ہمارے ملک میں خواتین کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی گئے ہیں۔

اگر ہم ’خواتین کے حقوق‘ کو اسلام کے تناظر میں دیکھیں تو وہاں بھی ہمیں خواتین کے حقوق کے بارے میں زور دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے اگر عورت اور مرد دونوں مل کر ایک دوسرے کو احترام دیتے ہوئے دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں تو اس مقصد سے سب کو بلا امتیاز مواقع فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ملازمت پیشہ خواتین کے بارے میں منفی رویہ پایا جاتا تھا۔ مگر اب وقت بدل چکا ہے ملازمت پیشہ خواتین نے کافی حد تک اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی ہے اس سوچ کو فروغ دیا ہے معاشرے میں کہ گھر سے باہر جا کر مردوں کے بیچ بیٹھ کر کام کرنے والی خواتین بھی دراصل گھر کی کفالت کے لئے گھر داری کر رہی ہے، گھر میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے والی خواتین ہی کی طرح وہ بھی محترم ہے۔

میرا ایک پیغام خصوصاً ان خواتین کے نام ہے جو بعض اوقات اپنے گھریلو حالات سے مجبور و پریشان ہو کر خود کو حالات کے تابع چھوڑ دیا ہے۔   ؎

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول، زباں اب تک تیری ہے

خدارا! اب تو ہوش کے ناخن لیں۔ خود میں ہمت پیدا کریں اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ حالات انسان کے تابع ہوتا ہے نہ کہ انسان حالات کے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر عورت اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہے تو اسے دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اسے ناتواں جان کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ عورت انصاف چاہتی ہے، عزت چاہتی ہے، تحفظ کی چادر چاہتی ہے اور سب سے بڑھ کر عورت برابری کا حق چاہتی ہے۔ صرف برابری کا برتری کا نہیں۔ ہمیں اپنے حقوق کی، اپنی آزادی کی لڑائی لڑنا ہے آزادی سے مراد مغرب کی تقلید نہیں ہے آزادی خواہ کسی بھی چیز کی ہو حد سے تجاویز کر جائے تو ناسور بن جاتی ہے۔ ہمیں لوگوں کی سوچ کو بھی تبدیل کرنا ہے جو معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہے۔ عورت کا حق مسلم ہے، عورت کا تقدس مستحکم ہے۔  

اس ساری صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو مثبت راہ میں اچھے اور برے کی تمیز کے ساتھ استعمال کرنا سیکھیں۔ جو عزت و مقام اور مرتبہ ہمیں اس معاشرے میں حاصل تھا وہ عزت مقام اور مرتبہ مزید بڑھانے کے لئے ہمیں خود کوشش کرنی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ مردوں کے اس معاشرے میں ہم محض لوگوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کے رہ جائیں۔


نوشین انصاری

ممبئی


Ramadan Mubarak is also the month of reformation of individuals and society

The auspicious month of Ramadan has come to a shadow, Muslims are happy all around. The righteous servants of Allah eagerly wait for this mo...