ایک پیغام خواتین کے نام
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
عورت کو محبت نہیں عزت و تحفظ چاہئے، شاید یہ سمجھنے کی ضرورت ہے
عورت صنف نازک ہے، عورت چھپانے والی چیز ہے عورت کسی بھی ریاست کی آبادی میں اضافے کی وجہ ہے۔ اسلام سے پہلے عورت کو کوئی مقام حاصل نہیں تھا۔ لڑکیوں کے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے آکر عورت کو وہ مقام دیا جو کوئی بھی مذہب عورت کو نہ دے سکا حتیٰ کہ وراثت میں بھی حصہ کی حقدار ٹھہرائی گئی۔ ’عورت‘ اس دنیا میں اسے عزت کے تمام تر رتبے عطا کئے گئے ہیں۔ بیٹی، بہن، بیوی اور سب سے بڑھ کر اسے ماں کا رشتہ عطا کر کے پروردگار عالم نے جنت کو اس کے پیروں تلے قرار دیا کہ انسان اس کی خدمت کر کے جنت کو اپنے لیے واجب کرے۔
حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہی ہے عورت اب بھی مرد کے جبر کا شکار ہے۔ تعلیم اس کے لئے لازم نہیں سمجھی جاتی کہ اس نے کون سا نوکری کرنا ہے لیکن یہ نہیں سوچا جاتا کہ عورت تعلیم حاصل کرے گی تو بہتر طریقے سے بچوں کی پرورش کرے گی۔ بہتر طور طریقے سے گھر کا نظام چلائے گی۔ مرد کے اس معاشرے میں عورت بہت کمزور ہے۔ عورت کی کوئی عزت نہیں۔ ایسا کیوں؟ کیونکہ عورت نے کبھی اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھائی ہر ظلم و تشدد کا نشانہ بنتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں میں خود اعتمادی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ آج اگر لڑکیوں میں خود اعتمادی نہ ہو گی تو آئندہ آنے والی نسل کی تربیت کس طرح کریں گی؟
’خواتین کے حقوق‘ یہ ایک ایسا نعرہ ہے جسے استعمال کرتے ہوئے کوئی سیاستداں ہو، اینکر پرسن ہو، این جی اوز ہوں، مقبولیت حاصل کرسکتا ہے۔ خواتین کے حقوق کا نعرہ لگا کر آگے بڑھنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے اور مقصد سیاسی ہو یا سماجی یہ نعرہ بہت کام آتا ہے۔ آج ملک بھر میں عالمی یوم خواتین بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے،فنکشنز کئے جاتے ہیں زبانی بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، مٹینگیں کی جاتی ہیں، اجلاس کئے جاتے ہیں۔ مگر نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ حقوق کس کو ملتے ہیں؟ تحفظ کس کو ملتا ہے؟ انصاف کس کو مہیا کیا جاتا ہے؟ معاشرے کے حالات کہاں تک بدلے ہیں؟ ایسا کچھ نہیں ہے ہمارے ملک میں خواتین کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی گئے ہیں۔
اگر ہم ’خواتین کے حقوق‘ کو اسلام کے تناظر میں دیکھیں تو وہاں بھی ہمیں خواتین کے حقوق کے بارے میں زور دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے اگر عورت اور مرد دونوں مل کر ایک دوسرے کو احترام دیتے ہوئے دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں تو اس مقصد سے سب کو بلا امتیاز مواقع فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ملازمت پیشہ خواتین کے بارے میں منفی رویہ پایا جاتا تھا۔ مگر اب وقت بدل چکا ہے ملازمت پیشہ خواتین نے کافی حد تک اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی ہے اس سوچ کو فروغ دیا ہے معاشرے میں کہ گھر سے باہر جا کر مردوں کے بیچ بیٹھ کر کام کرنے والی خواتین بھی دراصل گھر کی کفالت کے لئے گھر داری کر رہی ہے، گھر میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے والی خواتین ہی کی طرح وہ بھی محترم ہے۔
میرا ایک پیغام خصوصاً ان خواتین کے نام ہے جو بعض اوقات اپنے گھریلو حالات سے مجبور و پریشان ہو کر خود کو حالات کے تابع چھوڑ دیا ہے۔ ؎
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
خدارا! اب تو ہوش کے ناخن لیں۔ خود میں ہمت پیدا کریں اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ حالات انسان کے تابع ہوتا ہے نہ کہ انسان حالات کے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر عورت اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہے تو اسے دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اسے ناتواں جان کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ عورت انصاف چاہتی ہے، عزت چاہتی ہے، تحفظ کی چادر چاہتی ہے اور سب سے بڑھ کر عورت برابری کا حق چاہتی ہے۔ صرف برابری کا برتری کا نہیں۔ ہمیں اپنے حقوق کی، اپنی آزادی کی لڑائی لڑنا ہے آزادی سے مراد مغرب کی تقلید نہیں ہے آزادی خواہ کسی بھی چیز کی ہو حد سے تجاویز کر جائے تو ناسور بن جاتی ہے۔ ہمیں لوگوں کی سوچ کو بھی تبدیل کرنا ہے جو معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہے۔ عورت کا حق مسلم ہے، عورت کا تقدس مستحکم ہے۔
اس ساری صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو مثبت راہ میں اچھے اور برے کی تمیز کے ساتھ استعمال کرنا سیکھیں۔ جو عزت و مقام اور مرتبہ ہمیں اس معاشرے میں حاصل تھا وہ عزت مقام اور مرتبہ مزید بڑھانے کے لئے ہمیں خود کوشش کرنی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ مردوں کے اس معاشرے میں ہم محض لوگوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کے رہ جائیں۔
ممبئی
No comments:
Post a Comment