ہندوستان مسائل کا گہوارہ بن چکا ہے۔ آئے دن عجیب و غیریب مشکلات سے عوام کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے آج بی جے پی بر سر اقتدار آئی ہے تو یہ اس کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔ وہ مسلسل اپنے نظریات کو پھیلانے میں لگی ہے چوں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کے روزگار سے لے کر تعلیم و ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں مسلم قوم قدم بہ قدم تباہی کی راہ پر گامزن ہے۔ مسلمان آج بھی پسماندہ، پچھڑا اور دوسرے درجے کے شہری کی مانند زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس لیے ایسے ماحول میں ضروری ہوجاتاہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دی جائے کیوں کہ بچوں کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ یہی بچے ہمارا مستقبل اور کل سرمایہ ہیں۔ آج حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اس کے پیشِ نظربچوں کے بہترین مستقبل کے لئے عملی اقدامات میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اس سلسلے میں مزید کوتاہی کی تو لمحوں کی خطا سے صدیوں کی سزائیں ہمیں بھگتنی پڑیں گی۔سو اگر ہمیں تمنا ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرنے کی ہے جو یقیناَ مسلم قوم کا مستقبل ہے جو ان باتوں کو سیکھیں ان پر عمل کریں اور معاشرہ کو نئی بلندیوں پر لے جائیں۔ کسی معاشرے کی یا قوم کی ترقی کا انحصار علم پر منحصر ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے معاشرہ کی ترقی و خوشحالی جن بچوں سے وابستہ ہے کیا ہم ان نونہالوں میں علم کی تڑپ اور لگن پیدا کررہے ہیں؟ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں پر کتابیں لاد کر، انہیں ان کتابوں میں لکھے سیاہ حروف رٹا کر ہم نے ان میں علم کی طلب پیدا کر دی ہے۔ ثبوت کے طور پرا سکور کارڈ اور ڈگریاں دکھائی جاتی ہیں۔والدین کو طے کرنا ہو گا وہ اپنے بچوں کو عصری اور دینی تعلیم دونوں سے آراستہ کریں۔لہذٰا گرمی کی چھٹیوں کے دنوں کو بالکل بھی ضائع نہ ہونے دیں اسے بچوں کے لئے مؤثر بنائیں۔
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو چکی ہیں اسکامطلب بہت سی تفریح اور مزہ کرنا ہے۔ بچوں کی خوشی کی انتہا ہی نہیں۔ ایسے میں والدین کے اوپر ایک اور اہم ذمہ داری آن پڑی کہ کس طرح اپنے بچوں کی چھٹیوں کو کارآمد بنائیں۔ والدین کو چاہیے کہ چھٹیوں میں بچوں کو غیر متعلق اور مضر چیزوں سے دور رکھیں۔ روزانہ کا ایک ٹائم ٹیبل بنائیں نمازوں کی پابندی کی عادت ڈلوائیں۔ قرآنِ کریم کی تلاوت، صحابہئ کرام اور اولیائے کرام کے حالاتِ زندگی بتائیں تاکہ وہ ان کو سن کر اور پڑھ کر سبق حاصل کریں۔ آسان احادیث یاد کروائیں۔ بچوں کو زندگی گذارنے میں سنجیدگی کے طریقے بتائیں۔ ان کو غیر ضروری آزادی سے بچائیں۔ سستی و کاہلی سے دور کریں۔ صحیح دینی و اسلامی عقائد سکھائیں تاکہ وہ بد عقیدگی کے زہر سے محفوظ رہ سکیں۔ مختلف قسم کے مفید شارٹ ٹرم کورسیز میں داخل کرائیں۔آؤٹ ڈور سرگرمیوں سے متعارف کروائیں۔لڑکیوں کو بھی سلائی کڑھائی، کشیدہ کاری، اور دیگر پیشہ وارانہ مختصر مدتی کورس کروائیں۔ تعلیمی اداروں اور انجمنوں کے ذریعے بچوں کے لئے سمر کیمپ لگوائیں۔ سمر کلاسیس میں شریک سبھی بچوں کو کم از کم سرٹیفکٹ ضرور دیں تاکہ دوسرے بچے بھی ایسے تربیتی کیمپوں میں داخلہ لینے کی طرف متوجہ ہوں۔
کچھ والدین کی سوچ بھی عجیب ہوتی ہے جو بچوں کو صرف پڑھائی میں الجھا کر رکھتے ہیں اور انہیں دنیا کی دیگر چیزوں کا پتہ نہیں لگنے دیتے جس سے بچہ نصابی کتب کے متعلق تو سب جانتا ہے لیکن اس کا جنرل نالج بہت کمزو ہوتا ہے جس کا نقصان اسے عملی زندگی میں جاکر ہوتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ چھٹیوں میں بچوں کو نصابی اور غیر نصابی دونوں طرح کی سرگرمیوں سے روشناس کرائیں انہیں سپورٹس، سیاحت، شاعری، مصوری جیسے مشاغل بھی پڑھائی کے ساتھ جاری رکھنے دیں اس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا اور وہ عملی زندگی میں زیادہ کامیاب انسان ثابت ہو سکیں گے اس کے برعکس صرف پڑھائی کرنے والے بچے مشین جیسے ہوتے ہیں ان کی ساری توجہ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ نمبر لینے پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس طریقے سے بچے زیادہ نمبر تو لے لیتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کی نشوونما نہیں ہوپاتی۔ جبکہ غیر نصابی سرگرمیاں بچوں میں خود اعتمادی اور شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ بچے کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں ان میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے اور وہ اپنی بات کو درست طور پر نہیں بیان کر سکتے جس سے ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں باہر نہیں آتیں۔ انہیں غیر نصابی سرگرمیوں کے ذرائع سے دوسرے بچوں سے میل جول بڑھانے کا موقع دیں آٓپس میں اکٹھے وقت گزارنے والے بچے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں کیونکہ ہر بچے میں قدرت نے کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہے اس خوبی کو نکھارنے کیلئے اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہوتی ہے اور ایک مناسب حد میں رہتے ہوئے اگر بچے کو غیر نصابی شوق پورے کرنے کا موقع دیں تو اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو باہر نکالا جاسکتا ہے۔ دوران تربیت اس بات کا دھیان رہے کہ بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اس پر اُسے شاباشی اورکوئی ایسا تحفہ وغیرہ دینا چاہیے جس سے بچہ خوش ہوجائے اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق اس کے دل میں پیدا ہوجائے۔ بچہ نرم گیلی مٹی کی مانندہوتا ہے، ہم اس سے جس طرح پیش آئیں گے، اس کی شکل ویسی ہی بن جائے گی۔ جب بچے سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے سمجھائیں نہ کہ ماریں اور ڈانٹیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات بٹھائیں کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایاجائے۔ یاد رہے بہت زیادہ سختی اور بہت زیادہ نرمی بھی بعض اوقات بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ والدین چاہئے کہ وہ بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں، لہجوں اور طریقہ کار میں تبدیلی پیدا کر کے بچوں کی پرورش آسان اور فطرت کے مطابق کریں۔
گرمی کی چھٹیاں بچوں کیلئے نعمت ہیں اگر ان چھٹیوں کا استعمال درست ہو تو ان کی جسمانی و ذہنی نشوونما میں اضافہ کیا جاسکتا ہے چونکہ بچہ اپنے ابتدائی اوقات اپنے گھراور والدین کے ساتھ گزارتا ہے۔ والدین کا کردار بہت بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ انہیں چاہئے کہ بچوں کو اچھے اور برے کردار کی پہچان کرائیں ساتھ ہی ساتھ انہیں روزمرہ کے حالات سے واقف کرائیں۔ آج جوحکومت ہم پر مسلط ہے ہماری نااہلی کی وجہ سے۔لہذا بچوں کی کی تعلیم اور تربیت پر خاص توجہ دیں۔ جب تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تب تک یہ نام نہاد حکومت کی سیاسی دکانیں چلتی رہیں گی اس لئے خود بھی ان درندوں سے بچیں اور بچوں کو بھی بچائیں۔ سازگار و ناسازگار دونوں ماحول میں بچوں کی نشوونما سے ان میں خود اعتمادی، میانہ روی پیدا کریں تاکہ وہ معاشرے کا فعال رکن بن سکیں۔ اس سے ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کا کردار قابل بھروسہ اور مضبوط ہو گا۔یاد رکھئے بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر اُنھیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ہم نے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی ہے۔ بچوں کی اچھی تربیت سے ہی ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتاہے اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔
نوشین انصاری
No comments:
Post a Comment