چیزیں حیثیت نہیں رکھتیں، انسان بھی نہیں رکھتے، اہم ہوتے ہیں رشتے۔ جب ہم سے چیزیں چھین لی جائیں تو دل ڈوب ڈوب کے ابھرتا ہے۔ مگر جب رشتے کھو جائیں تو دل ایسا ڈوبتا ہے کہ ابھر نہیں سکتا، سانس تک رک جاتی ہے، پھر زندگی میں کچھ اچھا نہیں لگتا۔ رشتوں کی اہمیت انسان کی زندگی میں ایسے ہی ہے جیسے پودے کے لئے پانی۔ پانی کے بغیر پودے مرجھا جاتے ہیں ایسا ہی حال انسان کا ہوتا ہے کہ کوئی بھی رشتہ جب اس سے جدا ہوجائے تو وہ مرجھا جاتا ہے اس لئے رشتوں میں احساس کا ہونا ضروری ہے اگر احساس نہ ہو تو ہر رشتہ بے معنی ہوجاتا ہے۔ رشتوں کی اہمیت کو اگر سمجھا جائے تو ان کی حفاظت باغ میں لگے نازک پھولوں کی طرح کرنی پڑتی ہے کیوں کہ ہماری ذرا سی کوتاہی ان کو ٹہنی سے جدا کر دیتی ہے۔ رشتے خون کے ہوں یا مستقل،خاردار جھاڑیوں کی طرح ہوتے ہیں جو سائے کے ساتھ ساتھ زخم بھی دیتے ہیں۔بناوٹی رشتے تو موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں مگر خون کے رشتے کفن کی طرح اوڑھ لیے جاتے ہیں۔ رشتوں کا توازن برقرار رکھنے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر نرمی،جھکاؤ اور برداشت کا رویہ پیدا کریں۔
اسلام نے اس حوالے سے جس اہتمام کے ساتھ احکام بیان کیے ہیں، اگر حقیقتاً مسلمان اُن سے آگاہ ہو جائیں، اُن پر اُسی طرح ایمان رکھیں جس طرح ایمان رکھنے کا حق ہے اور حقیقی طور پر اُن کا نفاذ کر لیں تو یقین مانیں ایک مضبوط، خوشحال اور باہمی محبت کا خوگر خاندان وجود میں آسکتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ایک مربوط و مضبوط خاندان کی تشکیل عمل میں آئے۔ اسلام میں خاندان کی بنیادی اکائیاں اگرچہ میاں بیوی ہیں مگر ان کے ساتھ ماں باپ، بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، بھائی بہنیں، چچا اور پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں بھی خاندان کا حصہ ہیں۔ اسلام میں خاندان سمٹا اور سکڑا ہوا نہیں بلکہ وسیع اور پھیلا ہوا ہے۔ یہ چچاؤں اور پھوپھیوں کی اولاد، ماموؤں اور خالاؤں کی اولاد پر مشتمل ہے۔ اسلام کا یہ اہتمامِ احکام بتاتا ہے کہ خاندان کا شیرازہ اس نظام میں متحد رہنا چاہیے کسی شاخ کو اپنی اصل سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔
ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ صورتِ حال اس سے بہت مختلف ہے۔ رشتے دار آپس میں کینہ و کدورت رکھتے ہیں۔ دنیا کے مال نے بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال اُس وقت تو اور زیادہ بُر ی ہو جاتی ہے جب معاملہ کسی وراثت سے حصہ لینے کا ہو۔ ہر کوئی لینا ہی چاہتا ہے دینا نہیں چاہتا۔ نتیجے میں جائداد کے حصے بخرے ہونے کے بجائے رشتوں کے حصے بخرے ہو جاتے ہیں اور خاندان ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ یہ صورتِ حال کافی تکلیف دہ ہے۔ حالانکہ یہی رشتے اجنبی لوگوں کے ساتھ نہایت درگزر، بے پناہ محبت و الفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ کمال اخلاق، کشادہ ظرفی اور اعلیٰ انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر اپنے ہی رشتے داروں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ایک چاہتا ہے کہ دوسرے کو گرا مارے، اُسے تباہ کرکے اپنا آپ سنوار لے۔ خدا کی قسم یہ حقیر دنیا اس قابل نہیں کہ اس کی بنا پر انسانوں کا قتل ہوتا رہے۔ بھائی اپنے بھائی سے دست و گریباں ہو اور تھانے کچہریوں میں مقدمات چلیں، پھر جیلیں اور قید خانے آباد ہوں۔ رشتہ دار اپنے رشتہ دار سے دشمنی مول لیں۔ یہ بات باعث افسوس ہے۔
ہمارے سماج میں یوں تو سارے رشتوں کی بڑی اہمیت ہے لیکن ان میں والدین سے جڑے رشتوں کی بڑی اہمیت اور حساسیت دیکھنے اور برتنے میں ملتی ہے۔ بہت سے گھروں میں جائداد کے حوالے سے خاندانوں میں اختلافات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ ان میں علیحدگی ہوجاتی ہے موت یا عید جیسے تہوار پر بھی وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔ دراصل رشتے احساسات سے جڑے ہوتے ہیں اگر احساس مرجائے تو ان ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی باریک باریک کرچیاں ایسے زخم دے جاتی ہیں جو رہتی سانسوں تک رستے رہتے ہیں اور ان زخموں کا مداوا نہیں ہوتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں خاندانی رشتوں میں بدگمانی کے ایسے سوراخ کردیتی ہیں کہ انسان ساری عمر ان سوراخوں میں وضاحتوں کی اینٹیں لگا کر بھی خوبصورت رشتوں کو نہیں بچا پاتا۔ ایسا محض اس لیے بھی ہوتا ہے کہ تعلق اور رشتے فرصت کے نہیں بلکہ عزت توجہ اور اہمیت کے محتاج ہوتے ہیں انھیں جتنی قدرومنزلت دی جائے اتنے ہی وہ گہرے اور مضبوط ہوتے جاتے ہیں، لیکن کیا ہے کہ ہم سب زندگی کے مسائل، مصائب اور بکھیڑوں میں پھنس کر اپنے اہم خونی رشتوں کی خدمت سے محروم رہتے ہیں اور اس خدمت کا قرض کندھوں پر اٹھائے اپنی اپنی قبروں میں چلے جاتے ہیں۔
حالانکہ رشتے محبت، الفت، احساس ذمہ داری اور ایک دوسرے کے حقوق اور جذبات و احساسات کا خیال رکھنے سے مضبوط ہوتے ہیں۔ مگر آج کے دور میں رشتے ناتے اور تعلقات پائیدار نہیں وقتی لگنے لگے ہیں تو اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں رشتوں کا تقدس اور احترام باقی نہیں رہا۔ ہر شخص خود کو دوسرے سے بہتر تصور کرنے لگا ہے اور صبر اور برداشت کی کمی بھی بہت سے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ اب لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط رشتوں میں دراڑ پڑجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر اپنے آس پاس نظر دوڑائی جائے تو ہر گھر بے سکونی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ہر گھر میں پریشانیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔گھروں میں سکون اورتعلقات کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ رشتوں کے تقدس کا خیال رکھا جائے۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ سب سے زیادہ مشکل جنگیں گھروں میں لڑی جاتی ہیں اور یہ جنگیں بہت ہی کٹھن ہوتی ہیں لیکن یہ ہمیشہ بے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں اس لیے بھی کہ اپنوں سے لڑنے میں ہمیشہ ہار ہی ہوتی ہے۔ کاش ہر گھر کے مکیں اس صداقت پر یقین کر پاتے کہ زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے کبھی برداشت کرکے اور کبھی کچھ نظرانداز کرکے۔ کیونکہ رشتوں میں جب دراڑ آجائے تو زندگیاں لگ جاتی ہیں انھیں پُرکرنے میں۔ ویسے بھی انسانی محرومیاں، بچپن کی زیادتیاں، بچپن کی مار اور بچپن کے سمجھوتے ہماری ذات کے خلا بن جاتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے جاتے ہیں، ہم کبھی اس خلا کو پُر نہیں کر پاتے۔
رشتوں ناطوں اور خاندانی نظام میں اتحاد واستحکام ہماری خوشگوار زندگی کے لئے از حدضروری ہیں۔ خوشگوار خاندان ہی ایک اچھے اور پْرسکون معاشرے کو جود میں لاسکتے ہیں۔ خوشگوار خاندان اور پْرسکون زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے یعنی جن خاندانوں میں انتشار وپراگندگی ہو، ایسے خاندان سکون ومسرت کی دولت سے محروم رہتے ہیں، اس طرح ایسے خاندانوں کے افرادزندگی کی اصل دولت یعنی سکون سے محروم رہتے ہیں اورپھر زندگی جواصل سرمایہ ہے، ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی ہے او راس کااثر ان کی آنے والی نسل پر پڑتاہے اور وہ آنے والی نسل پھررشتوں کی اہمیت وحقیقت سے ناآشنا رہتی ہے۔ اس لئے رشتوں کا آپ میں مضبوط ہونا خاندان کی بقا کے لئے لازم وملزوم ہیں۔
رشتے ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں جس پر زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ جائداد کی تقسیم پر خاندان کے تانے بانے کو بکھیرنا، رشتوں کو پارہ پارہ کرنا بہت ہلکا سوداہے۔یہ شیطان کی پیروی ہے اور شیطان انسان کو اکساتا ہے، سازشیں کرتا ہے، یہاں تک کہ رشتے داریاں تڑوا ڈالتا ہے۔ انسان تو دولت کا انبار چھوڑ کر چلا جائے گا کچھ بھی ساتھ نہیں لے جائے گا۔ انسان کو اپنے تعلقات ایسے بنانے چاہئیں کہ اُس کے بعداس کے اپنے اُس کے لیے دعائیں کریں، اور یہ کام خاندان کے افراد کے ساتھ تعلق اُستوار کرکے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے خاندان کی بقا، تحفظ اور نشوو ارتقا کی خاطر ان روابط اور تعلقات کے معاملے میں ہرلمحے خوفِ خدا سے کام لینا چاہئے۔ ان معاملات میں اپنی دانش مندی، دین داری اور دین پسندی کا مظاہرہ کریں اور اللہ کے قرآن اور رسولؐ کی سنت سے رہنمائی لی جائے۔
نوشین انصاری
No comments:
Post a Comment