Friday, 28 October 2022

ہنر مند خواتین اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے گھریلوحالات کو بہتر بنا ئیں


معاشرے میں نصف فیصد سے زیادہ خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہے۔ اگر معاشرے کا جائزہ لیں تو ہر دوسری خواتین کی زندگی میں تکلیفیں، پریشانیاں، اضطراب، ڈپریشن اور مایوسی نظر آئیں گی۔ جن سے بچنا خواتین کے لئے ازحد ضروری ہے۔  اس لئے پریشانیوں اور تفکرات سے نجات کا واحد طریقہ یہ ہے خواتین اپنے ذہن کو کسی تعمیری کام میں مصروف رکھیں اتنا مصروف کہ یہ سوچنے کا بھی وقت نہ ہو کہ ”آپ خوش ہیں یا ناخوش۔“ مصروفیت کے لئے چند اہم نکات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ مصروفیت اس نوعیت کی ہو کہ اس سے آپ کا ذہن اور جسم دونوں مصروف رہیں۔ یاد رہے یہ مصروفیات مثبت اور تعمیری ہو۔ مثال کے طور پرکسی کے کام آ جانا، کسی سماجی سرگرمی کا حصہ بننا، کسی تحریر کا لکھنا،بچوں  یا شوہر کو وقت دینا، ماں باپ سے نیک سلوک کرنا، رشتے داروں کے مسائل نبٹانا، محلے کے اجتماعی مفاد میں اقدام کرنا، وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار سرگرمیاں ہیں جو آپ اپنے ذوق کے مطابق منتخب کرسکتی ہیں۔

فی لحال ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کا مسئلہ ہر طبقے کو متاثر کررہاہے اور ظاہر ہے کہ خواتین بھی اس حوالے سے فکر مند رہتی ہیں۔ خواتین کی بڑی تعداد سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمت کر کے اپنے گھر کے سربراہ کا ہاتھ بٹا رہی ہیں یا بعض خاندانوں میں عورت ہی واحد کفیل ہے۔ تاہم ہر عورت ملازمت کے لیے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی اور مختلف وجوہ کی بنا پر صبح سے شام تک ملازمت  کرنا اس کے لیے آسان نہیں۔اگر انہیں ایسا پلیٹ فارم میسر آجائے جو کسی شعبے میں ان کی تربیت کرتے ہوئے باوقار اور باعزت روزگار کا وسیلہ بنے تو نہ صرف گھروں میں بیٹھی تعلیم یافتہ بلکہ غیر تعلیم یافتہ خواتین بھی انفرادی طور پر اپنے حالات میں تبدیلی لا کر خاندان کے تمام افراد کے طرزِ زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے۔

سب سے پہلے آپ باقاعدگی کے ساتھ مصروف معمولات میں سے کچھ وقت نکال کر وہ کام کریں جو آپ بے پناہ مصروفیت میں بھی کرنا چاہتی ہیں۔ ایسے کام جو آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھاریں جیسا کہ باغبانی، ہاتھ سے ڈیکوریشن کی اشیا بنانا، بچوں کے کپڑوں اور خواتین کے ملبوسات کی تیاری، سلائی کڑھائی، بنائی کا کام، گھریلو آرائشی اشیاء کی تیاری، جیولری اور پلاسٹک کی اشیاء کی تیاری، لفافے بنانا اور مختلف اشیاء کی پیکنگ کا کام گھر میں کرنا، وغیرہ۔  اس کے علاوہ جو خواتین کم پڑھی لکھی ہیں مگر کھانا اچھا بنا لیتی ہے تو وہ اپنے گھروں میں ’ہوم میڈ فوڈ سروس‘ کا آغاز کر سکتی ہے۔ مختلف اقسام کے کھانے تیار کر کے مختلف دفاتر اور فیکٹریوں میں بھجوا سکتی ہیں۔ جو لوگ گھر کے کھانے کو باہر کے کھانوں پر ترجیح دیتے ہیں ان کے لیے یہ کھانے نعمت ثابت ہوتے ہیں۔ جو نہ صرف سستے مل جاتے ہیں بلکہ ذائقے دار بھی ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں جو خواتین گھر میں اچار بنانے میں ماہر ہیں  وہ مارکیٹوں میں ہول سیلرز اور سپر اسٹورز کے مالکان کو فروخت کر سکتی ہیں۔

اسی طرح وہ خواتین جو گھر میں تنہا رہتی ہیں اپنے گھر کو ”ڈے کیئر سینٹر“ کا روپ دے کر اپنے کام کا آغاز کرسکتی ہیں۔ جہاں ملازمت پیشہ مائیں، بلا خوف و خطر اور بلا جھجھک اپنے بچوں کو چھوڑ کر سکون سے کام پر جاسکتی ہیں۔ یہ علاقے کی خواتین کے لیے بہت مناسب ثابت ہوسکتا ہے۔ پھر آگے چل کر آس پاس کے علاقوں یا دوسرے محلوں کی خواتین بھی اس ”ڈے کیئر سینٹر“ سے استفادہ کرسکیں گی۔ بچوں کی تعداد بڑھ جانے کی صورت میں خواتین ملازم بھی رکھی جاسکتی ہیں یوں دوسری خواتین کو بھی روزگار مل سکے گا۔  اس کے علاوہ ایسی بہت سی خواتین ہیں جو اپنے گھر میں بوتیک کا کام، بیوٹی پارلر کا کام اور ٹیوشن سینٹرز بڑے آرام سے چلاسکتی ہیں۔ ان کاموں سے انہیں معقول آمدنی بھی ہو گی اور محلے کی خواتین کو سہولت بھی فراہم ہوجائے گی۔ آس پڑوس میں اپنی خواتین بہنوں کی ضرورت کا بھی خیال رکھیں۔ اگر کوئی صاحب حیثیت خواتین  ہے تو انہیں بھی چاہئے کہ وہ اپنے علاقے کی ؎ ہنرمند خواتین کے لئے ’خواتین میلہ‘ کا انعقاد کرے۔جس میں سلائی کڑھائی، بچوں اور بڑوں کے ملبوسات، جیولری اور ہاتھ سے بنی ہوئی اشیاء اور ساتھ ہی کھانے پینے کے اسٹال بھی ہوں۔ درجن بھر اسٹال سجائے جائیں اور ہر اسٹال گویا ہنر کا ایک مکمل نمونہ دکھائی دے۔ ۔۔لوگ دیکھتے رہ جائیں۔۔۔ کہ فن کا یہ مظاہرہ  فقط صنف نازک کی دست کاری ہے، کسی مشین کا نمونہ نہیں۔  اگر خواتین اسی طرح معاشی خود کفالت کی جانب اپنے قدم بڑھاتی رہیں تو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

معاشرے میں خواتین کا خود کفیل ہونا بہت ضروری ہے۔ ضروریات زندگی اور مہنگائی یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ خواتین باہنر بنیں، اپنے گھر کو سنبھالنے میں مردوں کی مدد کریں اور اپنے بچوں کو تعلیم سے مالا مال کریں۔ کیونکہ معاشرہ اسی خواتین کو مثالی سمجھتا ہے جو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے خاندان کے ادارے کو منظم رکھتی ہیں اور اسے مضبوط کرتی ہیں۔ معاشرے میں ایسی بہت سی تنظیمیں ہیں جو خواتین کے لئے کام کر رہی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ خواتین کیلئے تربیتی ادارے،شارٹ کورسیز اور گھریلو دست کاریوں کے مراکز قائم کریں جن سے گھریلو خواتین اور لڑکیاں استفادہ حاصل کریں۔ بلا شبہ ہماری خواتین ذہانت، قابلیت، اہلیت اور کارکردگی میں کسی سے کم نہیں ہیں۔وہ اپنی صلاحیت کے بل بوتے پرمعاشرے میں اپنا مقام بنا لے گی۔ کیونکہ اس معاشرے میں جنم لینے والی امید کی نئی کرن کو تقویت دینے اور ایک روشن مستقبل کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ خواتین کو ہراول دستے میں ان کا کردار ادا کرنے دیا جائے، ایسا ماحول پیدا کیا جائے جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لا سکیں۔ قابلیت اور صلاحیت ہی ہمارے بہتر معاشرے کی ضمانت ہے۔

نوشین انصاری

Saturday, 15 October 2022

عورت کا پردہ غیرت کا فقدان


    باپردہ عورت غیرت مند باپ،غیرت مند بھائی، غیرت مند شوہراور غیرت مند خاندان کی نشانی ہوتی ہے۔ بے حیائی ہر شے کو داغدار بنا دیتی ہے اور شرم و حیاء اْسے زینت عطا کرتی ہے۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں بخوبی اندازا ہوگا کہ اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں عربوں کا معا شرہ ستر و حجاب سے خالی نظر آتا تھا عورتوں میں نمائش حسن ِ نزاکت عام تھی،اپنی ذات کوفیشن سے پرْ کر لینا، اس میں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر جب دْنیا میں مذہبِ اسلام نے اپنا مقدس و پاکیزہ قدم رکھا تو تمام برائیاں ختم کردیں اور پردہ کو عورت کے حق میں لازم قراردیدیا تاکہ معاشرے میں بے ادبی، بے شرمی و بے حیائی نہ پھیلے، اور معاشرہ صاف ستھرا رہے۔ اسلام نے عورت کو دنیا میں جینے کا حق دیا.ماں،بیٹی اور بہن جیسا عظیم و شان رشتہ عطا کیا۔ 

اللہ تعالیٰ نے پردہ عورت کے لئے ایک نعمت رکھی ہے،پھر عورتیں کیوں بے پردہ ہو کر اپنی انا و عصمت کو داؤ پر لگا رہی ہیں۔ پردہ ہی تو ہے جو عورت کے لئے شرم و حیا کی علامت ہے اور اللہ کی طرف سے تحفہئ عظیم بھی۔ بے پردگی نے عورت کی عزت وعصمت کو اس طرح برباد کردیا ہے کہ پارسائی اور پاکدامنی کا لفظ بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ عورت کی پاکدامنی کا تاج حجاب، عورت کی خوبصورتی حیاء میں ہے، عورت کا رتبہ بلند اخلاق میں ہے عورت کا تحفظ پردے میں ہے پردے کا مقصدخواتین کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا یااْن کی تمناؤں کا خون کرنا نہیں ہے بلکہ اْس کو عزت وعصمت و عظمت کی دولت سے نوازنا ہے اور مردوں کو بے خیالات و جذبات سے بچانا ہے۔ اسلام نے معاشرے کی اصلاح اور برائی و بے حیائی کی روک تھام کے لیے کیسا مکمل اور جامع نظام معاشرتی مسلمانوں کو دیا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں آج اس نظام کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔

. اکثر لوگ عورت کی بے حجابی کا ذمہ دار والدین اور میڈیا کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ بات غلط بھی نہیں مگر یہاں سارا قصور ان کا بھی نہیں کیونکہ کئی لڑکیاں جو والدین کے گھر میں حجاب اوڑھتی ہیں مگر ان کے نام نہاد شوہر ان کا حجاب اتروا دیتے ہیں کیونکہ پردے سے ان کو شرم محسوس ہوتی ہے۔ اگر معاشرے کے بگاڑ کی بڑی وجہ بے حجابی ہے تو اس میں مرد حضرات بھی شامل ہے۔ کیونکہ عورت کے پردہ کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری مرد پر بھی عائد ہوتی ہے۔ عورت کی اصلاح کرنی ہے تو مرد کی اصلاح بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری قبول کرے۔ عورت فتنہ ہے تو اس کو فتنہ بنانے میں مردوں کا بھی برابر کا حصہ ہے۔ لہذا مرد اپنے آپ کو اس ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے جس کی بیوی با حجاب ہوگی اس کی بیٹی بھی باحجآب ہوگی۔ مگر افسوس! ہمارے معاشرے کی بری حالت کی خاص وجہ غیرت کا فقدان ہے۔ ہم نہایت بے حس اور شرم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ علم ہونا چاہئے کہ جس قوم کے کردار سے غیرت غائب ہو جائے تو وہ ایک مردہ جانور کی مانند ہے۔ 

آج کہا جاتا ہے کہ دنیا ترقی کر رہی ہے۔ عورت کا بن سنور کر نمائش کرنا، فیشن کا مظاہرہ کرنا یہ ترقی ہے،؟ مغربی طرز کے کپڑے پہن کر پارکوں، گلیوں اور بازاروں میں پھرنا اسکول وکالجوں میں پھرنا یہ کون سی ترقی کی مثال ہے؟ موجودہ صدی کی ایجاد و اختراع نے جہاں زندگی کوبہت حد تک پرْ آسائش بنا دیا ہے وہیں لوگوں کی لائف اسٹا ئل کو بھی بدل کے رکھ دیا ہے۔ آزادی کے نام پر بے پردگی اور ترقی کے نام پر بے حجابی اور عریانیت کو اپنا شعار بنالیا۔ مغرب کی طرف سے آنے والی یہ خوبصورت و ناپاک رنگ و ہوا کو قوس قزح کا خوبصورت رنگ سمجھ کر مسلم عورتوں نے اپنے آپ کو اس میں ڈھال لیا ہے۔ مغربی تہذیب نے ان کے فکرو شعور پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔ یہاں تک کہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر میدان میں حصہ لے رہی ہیں۔ دفتروں میں بھی خواتین کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔علاوہ ازیں اسکول و کالج اور یونیورسٹیوں میں دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی ہے، مگر دینی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ مرد حضرات سے ٹیوشن پڑھنا آج کے دور کا فیشن بنا ہوا ہے جس میں کثرت سے نوجوان مرد استاد حضرات ہیں۔ اس سے لڑکیوں کی نامحرم سے بات کرنے کی جھجک ختم ہورہی ہے اور اس طرح استاد سے روز بروز ملنے سے تعلق استوار ہورہے ہیں۔ ہمارے مذہب میں محرم اور نا محرم میں واضح فرق بیان کیا گیا ہے۔ اسلام میں پردہ چاہے آنکھوں کا ہو، آواز کا ہو یا چہرہ ڈھاپنے کا لیکن پردہ بہت ضروری قرار دیا گیا ہے۔ در حقیقت عورت کی عظمت پردے میں ہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں نصف فیصد خواتین پردے کو اہمیت دیتی نظر آتی ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں پردے کے فوائد سے فائدہ بھی اٹھاتی ہیں۔ جو عورتیں پردہ کرتی ہیں انہیں اپنے آپ پر فخر ہونا چاہیے کیونکہ دنیا میں بہت سی کتابیں ہیں مگرغلاف صرف قرآنِ پاک کو ہی چڑھا یا جاتا ہے دنیا میں کثیر تعداد میں عورتیں ہیں مگر پردہ صرف مسلمان عورت ہی کرتی ہے یعنی ہمیشہ عزت والی چیزوں کو ہی پردے میں رکھا جاتا ہے۔

واضح ہو کہ عورت ترقی اور آزادی کے نام پر اپنے حسن و زیبائش کی نمائش کرتی پھرتی ہے اور اسے روکنے والا نام نہاد مسلمان چاہے بھائی ہو باپ ہو یا شوہر ہو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔یہ نام نہاد سیکولر سوچ کے مالک ماڈرن لوگ جو پردے کو برائی اور دقیانوسی شے سمجھتے ہیں ان کو پتا ہونا چاہیئے کہ بے پردگی اور بے حیائی دور جاہلیت کی نشانیاں ہیں اور عورت کا بے پردہ ہونا نہ صرف معاشرتی تباہی کی وجہ بنتا ہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا بھی باعث بنتا ہے اور اسی لئے مسلمان روز بروز اخلاقی اور معاشرتی پستی کا شکار ہو کر دنیا میں پریشان ہیں۔ 

؎  آزادی یہ نہیں کہ عورت بے حیا ہو جائے

   فیشن یہ نہیں کہ عورت بے قبا ہو جائے

ہمارے ان مسلمان بھائیوں کو نیند سے بیدار ہونے کی اشد ضرورت ہے جو مغرب زدہ ذرائع ابلاغ کے لائے ہوئے طوفانِ بد تمیزی سے متاثر ہو کر اپنی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہیں دیکھیں اور جو چاہیں سنیں اور جب چاہیں اور جیسے چاہیں اپنے گھروں سے باہر چلی جائیں اور جس سے چاہیں ملاقاتیں کرتی رہیں۔ہم انہیں یاد دلاتے ہیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے ذمہ دار ہیں اور قیامت کے روز ان سے ان کی اس ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے بھی اس کی ذمہ داری کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔اور عورت اپنے خاوند کے گھر میں ذمہ دار ہے اور اس سے بھی اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا … سو تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ لہذا مسلمانو! اس ذمہ داری کا احساس کرو اور اپنی بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کو ان اسلامی تعلیمات کا پابند بناؤ جو کہ ان کے تحفظ کے لئے جائز کی گئی۔

نوشین انصاری


Wednesday, 5 October 2022

بچے ہماری قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہیں


    ہندوستان مسائل کا گہوارہ بن چکا ہے۔ آئے دن عجیب و غیریب مشکلات سے عوام کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے آج بی جے پی بر سر اقتدار آئی ہے تو یہ اس کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔ وہ مسلسل اپنے نظریات کو پھیلانے میں لگی ہے چوں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کے روزگار سے لے کر تعلیم و ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں مسلم قوم قدم بہ قدم تباہی کی راہ پر گامزن ہے۔ مسلمان آج بھی پسماندہ، پچھڑا اور دوسرے درجے کے شہری کی مانند زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس لیے ایسے ماحول میں ضروری ہوجاتاہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دی جائے کیوں کہ بچوں کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ یہی بچے ہمارا مستقبل اور کل سرمایہ ہیں۔ آج حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اس کے پیشِ نظربچوں کے بہترین مستقبل کے لئے عملی اقدامات میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اس سلسلے میں مزید کوتاہی کی تو لمحوں کی خطا سے صدیوں کی سزائیں ہمیں بھگتنی پڑیں گی۔سو اگر ہمیں تمنا ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرنے کی ہے جو یقیناَ مسلم قوم کا مستقبل ہے جو ان باتوں کو سیکھیں ان پر عمل کریں اور معاشرہ کو نئی بلندیوں پر لے جائیں۔ کسی معاشرے کی یا قوم کی ترقی کا انحصار علم پر منحصر ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے معاشرہ کی ترقی و خوشحالی جن بچوں سے وابستہ ہے کیا ہم ان نونہالوں میں علم کی تڑپ اور لگن پیدا کررہے ہیں؟ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں پر کتابیں لاد کر، انہیں ان کتابوں میں لکھے سیاہ حروف رٹا کر ہم نے ان میں علم کی طلب پیدا کر دی ہے۔ ثبوت کے طور پرا سکور کارڈ اور ڈگریاں دکھائی جاتی ہیں۔والدین کو طے کرنا ہو گا وہ اپنے بچوں کو عصری اور دینی تعلیم دونوں سے آراستہ کریں۔لہذٰا گرمی کی چھٹیوں کے دنوں کو بالکل بھی ضائع نہ ہونے دیں اسے بچوں کے لئے مؤثر بنائیں۔

گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو چکی ہیں اسکامطلب بہت سی تفریح اور مزہ کرنا ہے۔ بچوں کی خوشی کی انتہا ہی نہیں۔ ایسے میں والدین کے اوپر ایک اور اہم ذمہ داری آن پڑی کہ کس طرح اپنے بچوں کی چھٹیوں کو کارآمد  بنائیں۔ والدین کو چاہیے کہ چھٹیوں میں بچوں کو غیر متعلق اور مضر چیزوں سے دور رکھیں۔ روزانہ کا ایک ٹائم ٹیبل بنائیں نمازوں کی پابندی کی عادت ڈلوائیں۔ قرآنِ کریم کی تلاوت، صحابہئ کرام اور اولیائے کرام کے حالاتِ زندگی بتائیں تاکہ وہ ان کو سن کر اور پڑھ کر سبق حاصل کریں۔ آسان احادیث یاد کروائیں۔ بچوں کو زندگی گذارنے میں سنجیدگی کے طریقے بتائیں۔ ان کو غیر ضروری آزادی سے بچائیں۔ سستی و کاہلی سے دور کریں۔ صحیح دینی و اسلامی عقائد سکھائیں تاکہ وہ بد عقیدگی کے زہر سے محفوظ رہ سکیں۔ مختلف قسم کے مفید شارٹ ٹرم کورسیز میں داخل کرائیں۔آؤٹ ڈور سرگرمیوں سے متعارف کروائیں۔لڑکیوں کو بھی سلائی کڑھائی، کشیدہ کاری، اور دیگر پیشہ وارانہ مختصر مدتی کورس کروائیں۔ تعلیمی اداروں اور انجمنوں کے ذریعے بچوں کے لئے سمر کیمپ لگوائیں۔ سمر کلاسیس میں شریک سبھی بچوں کو کم از کم سرٹیفکٹ ضرور دیں تاکہ دوسرے بچے بھی ایسے تربیتی کیمپوں میں داخلہ لینے کی طرف متوجہ ہوں۔ 

کچھ والدین کی سوچ بھی عجیب ہوتی ہے جو بچوں کو صرف پڑھائی میں الجھا کر رکھتے ہیں اور انہیں دنیا کی دیگر چیزوں کا پتہ نہیں لگنے دیتے جس سے بچہ نصابی کتب کے متعلق تو سب جانتا ہے لیکن اس کا جنرل نالج بہت کمزو ہوتا ہے جس کا نقصان اسے عملی زندگی میں جاکر ہوتا ہے۔  والدین کو چاہیے کہ چھٹیوں میں بچوں کو نصابی اور غیر نصابی دونوں طرح کی سرگرمیوں سے روشناس کرائیں انہیں سپورٹس، سیاحت، شاعری، مصوری جیسے مشاغل بھی پڑھائی کے ساتھ جاری رکھنے دیں اس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا اور وہ عملی زندگی میں زیادہ کامیاب انسان ثابت ہو سکیں گے اس کے برعکس صرف پڑھائی کرنے والے بچے مشین جیسے ہوتے ہیں ان کی ساری توجہ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ نمبر لینے پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس طریقے سے بچے زیادہ نمبر تو لے لیتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کی نشوونما نہیں ہوپاتی۔ جبکہ غیر نصابی سرگرمیاں بچوں میں خود اعتمادی اور شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ بچے کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں ان میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے اور وہ اپنی بات کو درست طور پر نہیں بیان کر سکتے جس سے ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں باہر نہیں آتیں۔ انہیں غیر نصابی سرگرمیوں کے ذرائع سے دوسرے بچوں سے میل جول بڑھانے کا موقع دیں آٓپس میں اکٹھے وقت گزارنے والے بچے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں کیونکہ ہر بچے میں قدرت نے کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہے اس خوبی کو نکھارنے کیلئے اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہوتی ہے اور ایک مناسب حد میں رہتے ہوئے اگر بچے کو غیر نصابی شوق پورے کرنے کا موقع دیں تو اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو باہر نکالا جاسکتا ہے۔ دوران تربیت اس بات کا دھیان رہے کہ بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اس پر اُسے شاباشی اورکوئی ایسا تحفہ وغیرہ دینا چاہیے جس سے بچہ خوش ہوجائے اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق اس کے دل میں پیدا ہوجائے۔ بچہ نرم گیلی مٹی کی مانندہوتا ہے، ہم اس سے جس طرح پیش آئیں گے، اس کی شکل ویسی ہی بن جائے گی۔ جب بچے سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے سمجھائیں نہ کہ ماریں اور ڈانٹیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات بٹھائیں کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایاجائے۔ یاد رہے بہت زیادہ سختی اور بہت زیادہ نرمی بھی بعض اوقات بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ والدین چاہئے کہ وہ بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں، لہجوں اور طریقہ کار میں تبدیلی پیدا کر کے بچوں کی پرورش آسان اور فطرت کے مطابق کریں۔

گرمی کی چھٹیاں بچوں کیلئے نعمت ہیں اگر ان چھٹیوں کا استعمال درست ہو تو ان کی جسمانی و ذہنی نشوونما میں اضافہ کیا جاسکتا ہے چونکہ بچہ اپنے ابتدائی اوقات اپنے گھراور والدین کے ساتھ گزارتا ہے۔ والدین کا کردار بہت بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ انہیں چاہئے کہ بچوں کو اچھے اور برے کردار کی پہچان کرائیں ساتھ ہی ساتھ انہیں روزمرہ کے حالات سے واقف کرائیں۔ آج جوحکومت  ہم پر مسلط ہے ہماری نااہلی کی وجہ سے۔لہذا بچوں کی کی تعلیم اور تربیت پر خاص توجہ دیں۔ جب تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تب تک یہ نام نہاد حکومت کی سیاسی دکانیں چلتی رہیں گی اس لئے خود بھی ان درندوں سے بچیں اور بچوں کو بھی بچائیں۔ سازگار و ناسازگار دونوں ماحول میں بچوں کی نشوونما سے ان میں خود اعتمادی، میانہ روی پیدا کریں تاکہ وہ معاشرے کا فعال رکن بن سکیں۔ اس سے ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کا کردار قابل بھروسہ اور مضبوط ہو گا۔یاد رکھئے بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر اُنھیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ہم نے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی ہے۔ بچوں کی اچھی تربیت سے ہی ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتاہے اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔

نوشین انصاری

Tuesday, 4 October 2022

تقسیم جائداد پر خاندانی رشتوں میں بدگمانی اور اختلافات


چیزیں حیثیت نہیں رکھتیں، انسان بھی نہیں رکھتے، اہم ہوتے ہیں رشتے۔ جب ہم سے چیزیں چھین لی جائیں تو دل ڈوب ڈوب کے ابھرتا ہے۔ مگر جب رشتے کھو جائیں تو دل ایسا ڈوبتا ہے کہ ابھر نہیں سکتا، سانس تک رک جاتی ہے، پھر زندگی میں کچھ اچھا نہیں لگتا۔ رشتوں کی اہمیت انسان کی زندگی میں ایسے ہی ہے جیسے پودے کے لئے پانی۔ پانی کے بغیر پودے مرجھا جاتے ہیں ایسا ہی حال انسان کا ہوتا ہے کہ کوئی بھی رشتہ جب اس سے جدا ہوجائے تو وہ مرجھا جاتا ہے اس لئے رشتوں میں احساس کا ہونا ضروری ہے اگر احساس نہ ہو تو ہر رشتہ بے معنی ہوجاتا ہے۔ رشتوں کی اہمیت کو اگر سمجھا جائے تو ان کی حفاظت باغ میں لگے نازک پھولوں کی طرح کرنی پڑتی ہے کیوں کہ ہماری ذرا سی کوتاہی ان کو ٹہنی سے جدا کر دیتی ہے۔ رشتے خون کے ہوں یا مستقل،خاردار جھاڑیوں کی طرح ہوتے ہیں جو سائے کے ساتھ ساتھ زخم بھی دیتے ہیں۔بناوٹی رشتے تو موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں مگر خون کے رشتے کفن کی طرح اوڑھ لیے جاتے ہیں۔ رشتوں کا توازن برقرار رکھنے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر نرمی،جھکاؤ اور برداشت کا رویہ پیدا کریں۔

اسلام نے اس حوالے سے جس اہتمام کے ساتھ احکام بیان کیے ہیں، اگر حقیقتاً مسلمان اُن سے آگاہ ہو جائیں، اُن پر اُسی طرح ایمان رکھیں جس طرح ایمان رکھنے کا حق ہے اور حقیقی طور پر اُن کا نفاذ کر لیں تو یقین مانیں ایک مضبوط، خوشحال اور باہمی محبت کا خوگر خاندان وجود میں آسکتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ایک مربوط و مضبوط خاندان کی تشکیل عمل میں آئے۔ اسلام میں خاندان کی بنیادی اکائیاں اگرچہ میاں بیوی ہیں مگر ان کے ساتھ ماں باپ، بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، بھائی بہنیں، چچا اور پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں بھی خاندان کا حصہ ہیں۔ اسلام میں خاندان سمٹا اور سکڑا ہوا نہیں بلکہ وسیع اور پھیلا ہوا ہے۔ یہ چچاؤں اور پھوپھیوں کی اولاد، ماموؤں اور خالاؤں کی اولاد پر مشتمل ہے۔ اسلام کا یہ اہتمامِ احکام بتاتا ہے کہ خاندان کا شیرازہ اس نظام میں متحد رہنا چاہیے کسی شاخ کو اپنی اصل سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔

ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ صورتِ حال اس سے بہت   مختلف ہے۔ رشتے دار آپس میں کینہ و کدورت رکھتے ہیں۔ دنیا کے مال نے بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال اُس وقت تو اور زیادہ بُر ی ہو جاتی ہے جب معاملہ کسی وراثت سے حصہ لینے کا ہو۔ ہر کوئی لینا ہی چاہتا ہے دینا نہیں چاہتا۔ نتیجے میں جائداد کے حصے بخرے ہونے کے بجائے رشتوں کے حصے بخرے ہو جاتے ہیں اور خاندان ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ یہ صورتِ حال کافی تکلیف دہ ہے۔ حالانکہ یہی رشتے اجنبی لوگوں کے ساتھ نہایت درگزر، بے پناہ محبت و الفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ کمال اخلاق، کشادہ ظرفی اور اعلیٰ انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر اپنے ہی رشتے داروں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ایک چاہتا ہے کہ دوسرے کو گرا مارے، اُسے تباہ کرکے اپنا آپ سنوار لے۔ خدا کی قسم یہ حقیر دنیا اس قابل نہیں کہ اس کی بنا پر انسانوں کا قتل ہوتا رہے۔ بھائی اپنے بھائی سے دست و گریباں ہو اور تھانے کچہریوں میں مقدمات چلیں، پھر جیلیں اور قید خانے آباد ہوں۔ رشتہ دار اپنے رشتہ دار سے دشمنی مول لیں۔ یہ بات باعث افسوس ہے۔ 

ہمارے سماج میں یوں تو سارے رشتوں کی بڑی اہمیت ہے لیکن ان میں والدین سے جڑے رشتوں کی بڑی اہمیت اور حساسیت دیکھنے اور برتنے میں ملتی ہے۔ بہت سے گھروں میں جائداد کے حوالے سے خاندانوں میں اختلافات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ ان میں علیحدگی ہوجاتی ہے موت یا عید جیسے تہوار پر بھی وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔ دراصل رشتے احساسات سے جڑے ہوتے ہیں اگر احساس مرجائے تو ان ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی باریک باریک کرچیاں ایسے زخم دے جاتی ہیں جو رہتی سانسوں تک رستے رہتے ہیں اور ان زخموں کا مداوا نہیں ہوتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں خاندانی رشتوں میں بدگمانی کے ایسے سوراخ کردیتی ہیں کہ انسان ساری عمر ان سوراخوں میں وضاحتوں کی اینٹیں لگا کر بھی خوبصورت رشتوں کو نہیں بچا پاتا۔ ایسا محض اس لیے بھی ہوتا ہے کہ تعلق اور رشتے فرصت کے نہیں بلکہ عزت توجہ اور اہمیت کے محتاج ہوتے ہیں انھیں جتنی قدرومنزلت دی جائے اتنے ہی وہ گہرے اور مضبوط ہوتے جاتے ہیں، لیکن کیا ہے کہ ہم سب زندگی  کے مسائل، مصائب اور بکھیڑوں میں پھنس کر اپنے اہم خونی رشتوں کی خدمت سے محروم رہتے ہیں اور اس خدمت کا قرض کندھوں پر اٹھائے اپنی اپنی قبروں میں چلے جاتے ہیں۔

حالانکہ رشتے محبت، الفت، احساس ذمہ داری اور ایک دوسرے کے حقوق اور جذبات و احساسات کا خیال رکھنے سے مضبوط ہوتے ہیں۔ مگر آج کے دور میں رشتے ناتے اور تعلقات پائیدار نہیں وقتی لگنے لگے ہیں تو اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں رشتوں کا تقدس اور احترام باقی نہیں رہا۔ ہر شخص خود کو دوسرے سے بہتر تصور کرنے لگا ہے اور صبر اور برداشت کی کمی بھی بہت سے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ اب لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط رشتوں میں دراڑ پڑجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر اپنے آس پاس نظر دوڑائی جائے تو ہر گھر بے سکونی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ہر گھر میں پریشانیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔گھروں میں سکون اورتعلقات کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ رشتوں کے تقدس کا خیال رکھا جائے۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ سب سے زیادہ مشکل جنگیں گھروں میں لڑی جاتی ہیں اور یہ جنگیں بہت ہی کٹھن ہوتی ہیں لیکن یہ ہمیشہ بے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں اس لیے بھی کہ اپنوں سے لڑنے میں ہمیشہ ہار ہی ہوتی ہے۔ کاش ہر گھر کے مکیں اس صداقت پر یقین کر پاتے کہ زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے کبھی برداشت کرکے اور کبھی کچھ نظرانداز کرکے۔ کیونکہ رشتوں میں جب دراڑ آجائے تو زندگیاں لگ جاتی ہیں انھیں پُرکرنے میں۔ ویسے بھی انسانی محرومیاں، بچپن کی زیادتیاں، بچپن کی مار اور بچپن کے سمجھوتے ہماری ذات کے خلا بن جاتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے جاتے ہیں، ہم کبھی اس خلا کو پُر نہیں کر پاتے۔ 

رشتوں ناطوں اور خاندانی نظام میں اتحاد واستحکام ہماری خوشگوار زندگی کے لئے از حدضروری ہیں۔ خوشگوار خاندان ہی ایک اچھے اور پْرسکون معاشرے کو جود میں لاسکتے ہیں۔ خوشگوار خاندان اور پْرسکون زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے یعنی جن خاندانوں میں انتشار وپراگندگی ہو، ایسے خاندان سکون ومسرت کی دولت سے محروم رہتے ہیں، اس طرح ایسے خاندانوں کے افرادزندگی کی اصل دولت یعنی سکون سے محروم رہتے ہیں اورپھر زندگی جواصل سرمایہ ہے، ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی ہے او راس کااثر ان کی آنے والی نسل پر پڑتاہے اور وہ آنے والی نسل پھررشتوں کی اہمیت وحقیقت سے ناآشنا رہتی ہے۔ اس لئے رشتوں کا آپ میں مضبوط ہونا خاندان کی بقا کے لئے لازم وملزوم ہیں۔

رشتے ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں جس پر زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ جائداد کی تقسیم پر خاندان کے تانے بانے کو بکھیرنا، رشتوں کو پارہ پارہ کرنا بہت ہلکا سوداہے۔یہ شیطان کی پیروی ہے اور شیطان انسان کو اکساتا ہے، سازشیں کرتا ہے، یہاں تک کہ رشتے داریاں تڑوا ڈالتا ہے۔ انسان تو دولت کا انبار چھوڑ کر چلا جائے گا کچھ بھی ساتھ نہیں لے جائے گا۔ انسان کو اپنے تعلقات ایسے بنانے چاہئیں کہ اُس کے بعداس کے اپنے  اُس کے لیے دعائیں کریں، اور یہ کام خاندان کے افراد کے ساتھ تعلق اُستوار کرکے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے خاندان کی بقا، تحفظ اور نشوو ارتقا کی خاطر ان روابط اور تعلقات کے معاملے میں ہرلمحے خوفِ خدا سے کام لینا چاہئے۔ ان معاملات میں اپنی دانش مندی، دین داری اور دین پسندی کا مظاہرہ کریں اور اللہ کے قرآن اور رسولؐ کی سنت سے رہنمائی لی جائے۔

نوشین انصاری

Ramadan Mubarak is also the month of reformation of individuals and society

The auspicious month of Ramadan has come to a shadow, Muslims are happy all around. The righteous servants of Allah eagerly wait for this mo...