معاشرے میں نصف فیصد سے زیادہ خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہے۔ اگر معاشرے کا جائزہ لیں تو ہر دوسری خواتین کی زندگی میں تکلیفیں، پریشانیاں، اضطراب، ڈپریشن اور مایوسی نظر آئیں گی۔ جن سے بچنا خواتین کے لئے ازحد ضروری ہے۔ اس لئے پریشانیوں اور تفکرات سے نجات کا واحد طریقہ یہ ہے خواتین اپنے ذہن کو کسی تعمیری کام میں مصروف رکھیں اتنا مصروف کہ یہ سوچنے کا بھی وقت نہ ہو کہ ”آپ خوش ہیں یا ناخوش۔“ مصروفیت کے لئے چند اہم نکات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ مصروفیت اس نوعیت کی ہو کہ اس سے آپ کا ذہن اور جسم دونوں مصروف رہیں۔ یاد رہے یہ مصروفیات مثبت اور تعمیری ہو۔ مثال کے طور پرکسی کے کام آ جانا، کسی سماجی سرگرمی کا حصہ بننا، کسی تحریر کا لکھنا،بچوں یا شوہر کو وقت دینا، ماں باپ سے نیک سلوک کرنا، رشتے داروں کے مسائل نبٹانا، محلے کے اجتماعی مفاد میں اقدام کرنا، وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار سرگرمیاں ہیں جو آپ اپنے ذوق کے مطابق منتخب کرسکتی ہیں۔
فی لحال ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کا مسئلہ ہر طبقے کو متاثر کررہاہے اور ظاہر ہے کہ خواتین بھی اس حوالے سے فکر مند رہتی ہیں۔ خواتین کی بڑی تعداد سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمت کر کے اپنے گھر کے سربراہ کا ہاتھ بٹا رہی ہیں یا بعض خاندانوں میں عورت ہی واحد کفیل ہے۔ تاہم ہر عورت ملازمت کے لیے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی اور مختلف وجوہ کی بنا پر صبح سے شام تک ملازمت کرنا اس کے لیے آسان نہیں۔اگر انہیں ایسا پلیٹ فارم میسر آجائے جو کسی شعبے میں ان کی تربیت کرتے ہوئے باوقار اور باعزت روزگار کا وسیلہ بنے تو نہ صرف گھروں میں بیٹھی تعلیم یافتہ بلکہ غیر تعلیم یافتہ خواتین بھی انفرادی طور پر اپنے حالات میں تبدیلی لا کر خاندان کے تمام افراد کے طرزِ زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے۔
سب سے پہلے آپ باقاعدگی کے ساتھ مصروف معمولات میں سے کچھ وقت نکال کر وہ کام کریں جو آپ بے پناہ مصروفیت میں بھی کرنا چاہتی ہیں۔ ایسے کام جو آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھاریں جیسا کہ باغبانی، ہاتھ سے ڈیکوریشن کی اشیا بنانا، بچوں کے کپڑوں اور خواتین کے ملبوسات کی تیاری، سلائی کڑھائی، بنائی کا کام، گھریلو آرائشی اشیاء کی تیاری، جیولری اور پلاسٹک کی اشیاء کی تیاری، لفافے بنانا اور مختلف اشیاء کی پیکنگ کا کام گھر میں کرنا، وغیرہ۔ اس کے علاوہ جو خواتین کم پڑھی لکھی ہیں مگر کھانا اچھا بنا لیتی ہے تو وہ اپنے گھروں میں ’ہوم میڈ فوڈ سروس‘ کا آغاز کر سکتی ہے۔ مختلف اقسام کے کھانے تیار کر کے مختلف دفاتر اور فیکٹریوں میں بھجوا سکتی ہیں۔ جو لوگ گھر کے کھانے کو باہر کے کھانوں پر ترجیح دیتے ہیں ان کے لیے یہ کھانے نعمت ثابت ہوتے ہیں۔ جو نہ صرف سستے مل جاتے ہیں بلکہ ذائقے دار بھی ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں جو خواتین گھر میں اچار بنانے میں ماہر ہیں وہ مارکیٹوں میں ہول سیلرز اور سپر اسٹورز کے مالکان کو فروخت کر سکتی ہیں۔
اسی طرح وہ خواتین جو گھر میں تنہا رہتی ہیں اپنے گھر کو ”ڈے کیئر سینٹر“ کا روپ دے کر اپنے کام کا آغاز کرسکتی ہیں۔ جہاں ملازمت پیشہ مائیں، بلا خوف و خطر اور بلا جھجھک اپنے بچوں کو چھوڑ کر سکون سے کام پر جاسکتی ہیں۔ یہ علاقے کی خواتین کے لیے بہت مناسب ثابت ہوسکتا ہے۔ پھر آگے چل کر آس پاس کے علاقوں یا دوسرے محلوں کی خواتین بھی اس ”ڈے کیئر سینٹر“ سے استفادہ کرسکیں گی۔ بچوں کی تعداد بڑھ جانے کی صورت میں خواتین ملازم بھی رکھی جاسکتی ہیں یوں دوسری خواتین کو بھی روزگار مل سکے گا۔ اس کے علاوہ ایسی بہت سی خواتین ہیں جو اپنے گھر میں بوتیک کا کام، بیوٹی پارلر کا کام اور ٹیوشن سینٹرز بڑے آرام سے چلاسکتی ہیں۔ ان کاموں سے انہیں معقول آمدنی بھی ہو گی اور محلے کی خواتین کو سہولت بھی فراہم ہوجائے گی۔ آس پڑوس میں اپنی خواتین بہنوں کی ضرورت کا بھی خیال رکھیں۔ اگر کوئی صاحب حیثیت خواتین ہے تو انہیں بھی چاہئے کہ وہ اپنے علاقے کی ؎ ہنرمند خواتین کے لئے ’خواتین میلہ‘ کا انعقاد کرے۔جس میں سلائی کڑھائی، بچوں اور بڑوں کے ملبوسات، جیولری اور ہاتھ سے بنی ہوئی اشیاء اور ساتھ ہی کھانے پینے کے اسٹال بھی ہوں۔ درجن بھر اسٹال سجائے جائیں اور ہر اسٹال گویا ہنر کا ایک مکمل نمونہ دکھائی دے۔ ۔۔لوگ دیکھتے رہ جائیں۔۔۔ کہ فن کا یہ مظاہرہ فقط صنف نازک کی دست کاری ہے، کسی مشین کا نمونہ نہیں۔ اگر خواتین اسی طرح معاشی خود کفالت کی جانب اپنے قدم بڑھاتی رہیں تو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
معاشرے میں خواتین کا خود کفیل ہونا بہت ضروری ہے۔ ضروریات زندگی اور مہنگائی یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ خواتین باہنر بنیں، اپنے گھر کو سنبھالنے میں مردوں کی مدد کریں اور اپنے بچوں کو تعلیم سے مالا مال کریں۔ کیونکہ معاشرہ اسی خواتین کو مثالی سمجھتا ہے جو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے خاندان کے ادارے کو منظم رکھتی ہیں اور اسے مضبوط کرتی ہیں۔ معاشرے میں ایسی بہت سی تنظیمیں ہیں جو خواتین کے لئے کام کر رہی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ خواتین کیلئے تربیتی ادارے،شارٹ کورسیز اور گھریلو دست کاریوں کے مراکز قائم کریں جن سے گھریلو خواتین اور لڑکیاں استفادہ حاصل کریں۔ بلا شبہ ہماری خواتین ذہانت، قابلیت، اہلیت اور کارکردگی میں کسی سے کم نہیں ہیں۔وہ اپنی صلاحیت کے بل بوتے پرمعاشرے میں اپنا مقام بنا لے گی۔ کیونکہ اس معاشرے میں جنم لینے والی امید کی نئی کرن کو تقویت دینے اور ایک روشن مستقبل کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ خواتین کو ہراول دستے میں ان کا کردار ادا کرنے دیا جائے، ایسا ماحول پیدا کیا جائے جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لا سکیں۔ قابلیت اور صلاحیت ہی ہمارے بہتر معاشرے کی ضمانت ہے۔
نوشین انصاری