رمضان کا مبارک مہینہ سایہ فگن ہوچکاہے، چاروں طرف مسلمانوں میں خوشی ہی خوشی ہے۔ اللہ کے نیک بندوں کو اس مہینے کا شدت سے انتظار ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو مضان المبارک… سعادتوں، برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوں والا مہینہ جو ہے۔ رمضان المبارک کا روزہ،نماز، تراویح، صدقہ، زکوۃ، ذکر تلاوت، عمرہ اور دیگر اعمال صالحہ جہاں مردوں کیلئے ہیں وہیں عورتوں کیلئے بھی ہیں۔ ان اعمال کا اجر وثواب جس طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو نصیب کرتا ہے ویسے ہی عورتوں کو بھی عنایت کرتا ہے۔ لیکن خواتین میں یہ تصور عام ہے کہ رمضان تو صرف مردوں کا ہے، ہمارا کام صرف سحری پکانا اور افطار تیار کرنا ہے۔ عورتیں روزہ تو رکھتی ہیں مگر دیگر اعمال خیر میں پیچھے رہتی ہیں۔ رمضان المبارک جہاں نزول قرآن اور گناہوں کی بخشش کا مہینہ ہے وہاں یہ اسلامی تہذیب کا مظہر، اخوت و ہمدردی، ایثار وقربانی، صبروتحمل اور افرادو معاشرہ کی اصلاح کا مہینہ بھی ہے۔
لوگ دنیوی اعتبار سے رمضان المبارک کی آمد کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ گھروں میں مہینے بھر کی اشیاء خوردونوش کی لمبی چوڑی لسٹیں بنتی ہیں، بھرپور خریداری کی جاتی ہے، بازاروں میں رش بڑھ جاتا ہے، رمضان المبارک بطریق احسن گزارنے کیلئے ان ضروریات زندگی کا ہونا ضروری ہے لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ کچھ ضروریات اور لوازمات ان سے بھی زیادہ ضروری ہیں وہ یہ کہ رمضان المبارک میں عبادات کی ترتیب کیا ہو گی؟ روز کتنے پارے پڑھے جائینگے؟قیام اللیل کا اہتمام کیسے ہو گا؟ بچوں کی اصلاح کیسے ہو گی؟ گھر کا ماحول کیسے اسلامی بنایا جائیگا؟ ان کو روزہ رکھنے کی ترغیب کیسے دلائی جائیگی؟ رب کو کیسے منایا جائے گا؟ گناہوں کو کیسے بخشوایا جائیگا؟ رمضان کا حق کیسے ادا ہو گا اور روزہ کو بامقصد کیسے بنایا جائیگا؟ ہر شخص اپنے حساب اور اپنے طور طریقے کے مطابق رمضان المبارک کا اہتمام و استقبال کرتا اور اسکے فائدے سمیٹتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہر خواتین چاہتی ہیں کہ سحروافطار میں کھانے پینے کا پرتکلف انتظام ہو۔ سحری کے اوقات میں پراٹھے، نہاری اور پائے اور قیمہ بنائے جاتے ہیں، جبکہ افطاری میں مزے مزے کے پکوان سموسے، دہی بھلے اور فروٹ چارٹ تیارکی جاتی ہے۔یوں سمجھئے کہ خواتین کا زیادہ و قت کچن کی نذر ہو جاتا ہے جو کہ اچھی بات نہیں، اس طرح تو نماز رہ جاتی ہے اوریہ حقیقت ہے کہ نماز کے بغیر روزہ ادھورہ رہتا ہے۔
ٍ رمضان المبارک کا مقصدہے کہ انسان کا تزکیہ ہو، معاشرہ کی اصلاح ہو، اللہ کا قرب حاصل ہو، عبادات میں پختگی ہو، جنت کی طلب ہو، جہنم سے نفرت ہو، تلاوت میں باقاعدگی ہو، تقویٰ کے حصول کا جذبہ ہو۔ مگر کون اپنے گھروں کی اور معاشرے کی اصلاح کر رہا ہے؟ کون اپنے بچوں کو نیکی کی تلقین کررہا ہے …؟ دیکھنا یہ ہے کیا ہم نے رمضان کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تزکیہ نفس اور اپنا محاسبہ کیا یا نہیں؟ کیا کسی نے اس بات کا جائزہ لیا کہ اسکا یمان کتنا مضبوط ہوا؟ رب کے ساتھ تعلق کتنا بڑھا؟ بیوی بچوں کی کتنی اصلاح ہوئی؟ اور اہل خانہ کو رب کا کتنا قرب حاصل ہوا؟ قرآن مجید میں روزے کا مقصد بتایا گیا ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے۔ رمضان میں گناہ کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جاتاہے۔ معمولی نیکی کا اجر بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ نیکی کرنا اور گناہ سے بچنا یہ عمل افراد اور معاشرہ کی اصلاح کی بنیاد ہے۔
اصلاح کیلئے رمضان سے زیادہ اچھا اور بہتر مہینہ کوئی نہیں۔ اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ موسم گرما کی تعطیلات شروع ہو چکی ہے یقیناً کچھ بچے روزہ بھی رکھیں گے،اور بچوں کو روزہ رکھنے میں اس لئے آسانی ہو گی کہ انہیں اسکول جانے کے لئے صبح سویرے اُٹھنا نہیں پڑے گا اور ان کا روزہ بڑا اچھا گزرے گا۔ خواتین بچوں کی اس تعطیلات کو کار آمد بنائیں۔اپنے بچوں کو دین کی باتیں سکھائیں۔ کس طرح روزہ اور نماز ادا کریں۔ بچے آخر بچے ہیں، انہیں سمجھانا والدین کا فرض ہے ابتدائی عمرمیں اگر انہیں کام کی باتیں سمجھائی جائیں تو وہ اچھی باتوں کی طرف راغب ہو ں گے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اچھے کام کرنے کی عادت پختہ ہو جائے گی۔ جیسے کہ جو بچے قرآن شریف پڑھے ہوں ان کی تصحیح پر توجہ دی جائے تا کہ قرآن پاک کو مخرج کے ساتھ پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ نمازوں کے طریقے بتائے جائیں اور نماز کی دعائیں یاد کرائی جائیں۔ نماز کے ضروری مسائل بھی انھیں از بر کرائے جائیں۔ نماز، وضو کی عملی مشق بھی کرائی جائے۔دنیوی باتیں، حدیثیں بچوں کو بتائی جائیں۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی بری رسموں کی قباحتیں بھی ذہنوں میں بٹھائی جائیں اور ان سے دور رہنے کی تلقین کی جائے۔
کوشش کریں کہ اس مبارک مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائیں۔ دوسروں کے کام آئیں، ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کریں۔ غربا اور مساکین کا روزہ افطار کروائیں۔ سحری کے اوقات میں انہیں روزہ رکھنے کے لئے کھانے پینے کی اشیا مہیا کریں اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ جوآپ خود کھاتے ہیں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی اشیاء ان کو مہیا کریں۔ غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے اس ماہ مبارک میں اس کی کفالت کی جائے، ان کو احساس کمتری کے گڑھے سے نکالا جائے۔ ان کے چہروں سے افسردگی دور کی جائے اور اس کے لیے کچھ ضروری نہیں کہ زکوٰۃ فطرے ہی کی رقم استعمال کی جائے، رشتہ داری، پڑوس اور اسلامی بھائی چارہ کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی نجی رقموں سے جس قدر ہو سکے اس کی غم گساری کی جائے، زکوٰۃ فرض اور فطرہ تو واجب ہے ان کو ادا کرنا ہی ہے۔لیکن آج کل عام طور سے یہ دیکھا جاتا ہے لوگ بڑوں کو، مال داروں کو افطار کے لیے دعوت دیتے ہیں دبے کچلے غریب و محتاج افراد کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جب کہ یہ زیادہ اس کے مستحق ہیں کہ ان کی افطاری سحری اور کھانے کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے علاوہ اپنے علاقوں میں غریب و مفلوک الحال مسلمانوں کا پتا لگا کر ان کی امداد کریں اور اہل خیر حضرات کو اس کام کی طرف متوجہ کریں۔ کیوں کہ بالعموم شریف غربا کسی کے دروازے تک نہیں جاتے اور تنگی کی زندگی گزارتے رہتے ہیں اورغریب طلبہ کی امداد پر بھی توجہ دی جائے تا کہ وہ مالی تنگی کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے والے ہوں تو اس ارادے سے باز آجائیں اورذوق و شوق سے اپنے تعلیمی سلسلے کو باقی رکھیں۔
میری رب العزت سے التجاء ہے کہ ہمیں اور ہمارے معاشرے کے ہر فرد کے دل میں احساس پیدا کر دے جس سے ہمیں ایک دوسرے کے دکھ درد کا اندازہ ہو۔مسلمانوں اگر تم پر زکوٰۃفرض ہے تو زکوٰۃادا کرو اوراپنے عزیزوں، رشتہ داروں کو بھی زکوٰۃ دینے کے لیے آمادہ کرواپنے عزیزوں کی یہی خیرخواہی ہے کہ ان کو آخرت کے عذاب سے بچایا جائے۔ اور اس ماہِ مبارک میں برسنے والی رحمتوں اور برکتوں سے پورا اسلامی معاشرہ مستفید ہوسکے۔
نوشین انصاری
No comments:
Post a Comment