میں دفتر سے گھر پہنچی تو روز سے زیادہ خوش تھی۔کیونکہ آج مجھے تنخواہ ملی تھی۔ سوچا رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوگیا ہے اشیائے ضرورت کی چند اور چیزیں جمع کر لوں تا کہ رمضان کے دنوں میں رش اور افراتفری سے بچ سکوں۔ اچانک بازار جا کے نئے کپڑے لینے کا پروگرام بنایا۔ مجھے یاد نہیں کہ کتنے جوڑے کپڑے لے چکی تھی لیکن اتنا یادتھا کہ اسکی ضرورت سے کہیں زیادہ تھے۔ بازار میں قیمتی جوڑا کپڑوں کا خریدا۔ اذان کا وقت ہوچلا تھا۔ قریب ہی ایک ریسٹورنٹ تھا جس میں افطاری کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ فیملی کے ساتھ ہی ریسٹورنٹ میں روزہ کھولا۔ بل ادا کرنے اور کافی مقدار میں کھانا اپنے آگے چھوڑ کر میں با ہر آکر کھڑی ہوئی۔ ساتھ ہی اک کوڑے کاڈرم تھا جس میں ہوٹل میں ضائع ہونے والا کھانا وغیرہ پھینک دیا جاتا تھا۔اس میں ایک سات آٹھ سال کا بچہ کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔میں نے اس طرح کے بچے اور یہ نظارہ بہت دفعہ پہلے دیکھاتھا۔ لیکن ہمیشہ اک معمول کا واقعہ سمجھ کر کبھی اتنی توجہ نہ دی۔ لیکن آج اس بچے کے چہرے پہ کچھ خاص تھاجس نے مجھے متوجہ کر دیا۔ سرخ وسفیدخوبصورت بچے کو اس طرح کوڑے کے ڈھیر پہ دیکھ کر میرے اندر تجسس پیدا ہوا کہ دیکھوں یہ کیا کر رہا ہے۔اس لیے جب وہ کوڑے سے اک شاپر لے کر باہر نکلا تو میں بھی اسکے پیچھے چل پڑی۔کچھ فاصلے پر دو اور بچے بوسیدہ اور پھٹے ہوئے لباس میں غالباً اس بچے کا انتظار کر رہے تھے وہ بچے بھی پہلے بچے کی طرح انتہائی جوبصورت تھے لیکن انکے لباس اور ظاہری ہییت کی وجہ سے انکی حالت انتہائی خراب تھی۔ جب پہلے والا بچہ ان کے پاس پہنچا تو ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔اب اس بچے نے اپنا شاپر کھولا تو اس کو دیکھ کر میرے حواس ہی جواب دے گئے کہ اس میں وہ بچا ہوا کھانا تھا جو ہوٹل سے باہر پھینک دیا گیا تھا۔ جس کو بچے نے چن کر جمع کر لیاتھا اور جب بچے نے شاپر کھولا تو انتظار میں بیٹھے بچے پاگلوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کئی دنوں سے بھوکے ہوں یہ منظر دیکھ کرمیری آنکھوں میں آنسو خود بخود بہنا شروع ہوگئے۔ اپنا کچھ دیر پہلے لیا گیاکئی ہزار کا سوٹ بھی دماغ میں گردش کر رہا تھا اور ہوٹل میں ہمارے آگے ضائع ہونے والا کھانا بھی میرے ضمیر کو زخمی کر رہا تھا۔اور میں سوچ رہی تھی کہ ہم اپنی دھن میں اپنے اردگرد سے کتنے بے خبر ہیں۔
ایک لمحہ غور کیجئے کہ جس مہینے میں آسمان سے رحمتیں برس رہی ہوں۔ ہم اُس مہینے کی ساعتوں کو ناجائز منافع خوری لگانے کے چکر میں صرف کر رہے ہیں۔ پھر کیسے رحمت ہمارے بگڑے معاملات سنوارے گی۔ہم کیسے یہ تصور بھی کیسے کر سکتے ہیں کہ رمضان کی عبادات ہماری اصلاح کر پائیں گی۔ جس مہینے میں عبادات کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے ہم اُس با برکت مہینے میں بھی اپنے دامن میں خار سمیٹ رہے ہیں تو پھر کیسے ہم توقع کر سکتے ہیں کہ اللہ اپنی رحمت کے جوش سے ہماری بگڑی سنوار دے گا۔ اللہ نے تو ہم کو موقع دیا۔ جب ہم خود ہی اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجاے اُلٹا اپنا دامن تار تار کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ تو خدا کی رحمت کیسے ہم تک پہنچے گی۔ بخشش ہمیں ڈھونڈتی ہے۔ اُن لمحوں میں جب ہم مضبوط قدموں سے دھرتی پر چلتے ہیں۔ جب ہم بخشش کو ٹھکرا رہے ہیں تو بخشش اُن لمحوں میں کیسے ہم پر سایہ کرے گی، جب ہمارے قدموں میں کھڑے رہنے کی طاقت نہیں رہے گی۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ رمضان المبارک امت مسلمہ کے لیے کیا پیغام لے کر آتا ہے؟ روزہ اللہ تعالیٰ سے حد درجہ محبت اور عشق و وارفتگی کا مظہر ہے۔ روزہ دار کونہ تو کسی کی تعریف وتوصیف کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی سے جزا کی طلب۔روزہ دار کی بس اتنی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا رب اس کے اس خالص نذرانے کو اپنی بارگاہ میں قبول فر مالے، خالق کائنات ارشاد فر ماتا ہے روزہ میرے لیے ہے اس کی جزا میں خو دعطا کروں گا۔ روزہ جہاں حکم خدا وندی کی تعمیل کے لیے بھوک وپیاس کی شدت برداشت کر نے کا نام ہے وہیں روزہ سے ہمیں کئی طرح کے پیغامات بھی ملتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ وہ ہے جو مکمل طور پر خوش حال ہے، دولت کی ریل پیل ہے، عیش وعشرت کے سارے سامان مہیا ہیں، دوسرا طبقہ وہ ہے جو غربت وافلاس کا مارا ہے،اسے دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں،اللہ تعالیٰ نے اس دوسرے طبقے کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے زکوٰۃ وصدقات کا نظام قائم کیا ہے، لیکن عیش وآرام میں زندگی بسر کر نے والوں کو ان مفلسوں کے کرب واضطراب کا اندازہ کہا ں ہو تا ہے وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے لاکھوں خرچ کرتے ہیں لیکن سماج کے غربت زدہ ا فراد کے لیے ان کا جیب تنگ ہو جاتا ہے یہ ہمارے لیے بڑی بے غیرتی کی بات ہے۔
اسلام نے بندوں کے اندر دوسرے انسانوں کی بھوک وپیاس کی شدتوں کااحساس پیدا کر نے کے لیے روزے فرض کیے تاکہ ایک مہینے تک بھوک وپیاس کی صعوبتوں کو برداشت کر نے والا ان لاچار اور مجبور انسانوں کی کلفتوں کا اندازہ لگا سکے جو پورے سال اس مصیبت کا سامنا کرتے ہیں۔ گویا روزہ ہمیں درس دیتا ہے کہ سماج کے غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی امداد وتعاون کے لیے ہمیں آگے آنا چاہیے۔ افسوس کہ کئی صاحب ثروت ایسے ہیں جو روزہ ٹھنڈے دفاتر، ایئرکنڈیشنڈ گھروں اور گاڑیوں میں گزار کر شام کو انواع و اقسام کے کھانوں، رنگا رنگ پھلوں اور مشروبات سے چنے ہوئے دسترخوان پر بیٹھتے وقت باہر گلیوں اور سڑکوں میں بیٹھے ہوئے غریب و مفلس روزہ دار مسلمان بھائیوں کی ضرورتوں کا احساس بھی نہیں کرتے۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے پڑوس میں کوئی خالی پیٹ پانی کے گھونٹ سے روزہ رکھ رہا ہو اور شام کو افطاری کے وقت کھانے کے لئے کسی کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہا ہو۔ اسلام ہمیں ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔
ہندوستان میں ہم کس حال میں ہیں ہماری قوم کا بہت بڑا حصہ امداد کا مستحق ہے اور اس حصہ کی امداد کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے۔جن میں کچھ مستحق لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کمر توڑ مہنگائی میں عید کے اخراجات پورے کر نے کے لئے اپنے اسکول جانے والے بچوں کو بھی رمضان کے دوران مزدوری پر لگا دیتے ہیں جس سے عید کے اخراجات تو جیسے تیسے پورے ہوجاتے ہیں لیکن بچوں کی تعلیم کابڑا نقصان ہوجاتا ہے۔ گویا عید منانے کے لئے انہیں کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ یا جنہیں مستقل روزگار میسر نہیں جو یہاں وہاں مزدوری کرکے بے چارے دن بھر میں صرف دو وقت کی روٹی یا اس سے کچھ ہی زیادہ کما پاتے ہیں جو اس مہنگائی میں ناکافی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کوعید منانے کے لئے دوسروں کے اترے ہوئے پرانے کپڑوں پر اکتفا کر نا پڑنا ہے یا پھر بازار سے کم قیمت کے پرانے کپڑے خرید نے پڑتے ہے۔کچھ والدین ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں کی خواہشات اور ضد پوری نہیں کر پاتے۔ یہ وہ درد ہے جو اچھے اچھے ہمت والوں کے دل کو رلا دیتا ہے۔ یہی احساس ہے جو غریب لوگوں کو قرض لے کر یا اور کسی طرح رقم جوڑ کر اپنے بچوں کو نئے کپڑے دلانے پر مجبور کرتا ہے اور ہمارے بہت سے امیر لوگ اس احساس کو سمجھنے کی بجائے اس میں معاونت کر نے کی بجائے طعنہ دیتے ہیں کہ نہیں ہے تو قرض لے کر نئے کپڑے لینے کی کیا ضرورت ہے،کیا نئے کپڑوں کے بغیر عید نہیں ہو سکتی، جتنی چادر ہے اتنے ہی پیر پھیلانے چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے۔ اگر ہم ان سب باتوں کا باریکی سے جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ہمارا مسلم معاشرہ کس حق تک ہماری امداد کا مستحق ہے۔
ہمیں یہ بات پتہ ہونی چاہئے کہ قوم کو امداد کی ضرورت صرف ماہ رمضان میں ہی نہیں ہے بلکہ ہم لوگ سال بھر کسی نہ کسی طرح حالت حاجت میں ہی رہتے ہیں لیکن ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہم رمضان میں ہی پوری زکوٰۃ لٹا دیتے ہیں بعد کے لئے کچھ نہیں رکھتے۔ آئیے رمضان کے اس با برکت مہینے سے ہی اس کی کوشش کریں۔ اگر ہم رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ کی رقم کو ایک جگہ جمع کریں اور منظم طریقے سے اسے مستحق لوگوں میں خرچ کریں تو اس میں سے کچھ رقم بچ سکتی ہے جسے قوم کے دیگر کاموں میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔ اس نظام کی شروعات پڑوس سے، محلے یا بستی سے ہونی چاہئے۔رمضان المبارک کا یہ مہینہ انتہائی بر کت والا ہے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں ثواب حاصل کر نے کے بہت سارے مواقع رکھے ہیں اور الحمد اللہ مسلمان قوم اس ماہ میں ثواب کمانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے، جس میں غرباء و مساکین کی امداد کو ہی تر جیح بھی دی جاتی ہے۔ ہم لوگ فرداً فرداً اپنی زکوٰۃ یا صدقات ادا کرتے ہیں اور اس میں ہو تا یہ ہے کہ ہم عام طور پر یہ تحقیق نہیں کر پاتے کہ کون مستحق ہے اور کون غیر مستحق۔ ہماری امداد اصل حقداروں تک نہیں پہنچ پاتی بلکہ اسے جعلی فقیر ڈھونگی غریب اور چندہ خورلوگ ہی لے اڑ تے ہیں اور اصل مستحقین بے چارے اپنے ہی غم میں غلطاں رہ جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں زکوٰۃ کا اجتماعی نظام اور بیت المال کابہترین انتظام کیا گیا ہے۔ میری التجا ہے ان مسلم بھائیوں اور بہنوں سے کہ مخصوص اداروں اور بیت المال کے ذریعے اپنی زکوٰۃ و صدقات اور امدادکو مستحق لوگوں تک پہنچائیں تاکہ ان کی بھی رمضان عید آسان ہو سکے۔اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی بر کتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے کی توفیق عطا فر مائے۔آمین!
نوشین انصاری
No comments:
Post a Comment