حال ہی میں ہوئے بی ایم سی انتخابات میں ہندوستان کی عوام کو جتنا نقصان مذہب اور قومیت کے نام پر ہونے والی غیر ذمہ دارانہ سیاست سے ہوا اتنا شاید کسی اور وجہ سے نہیں ہوا۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلم عوام کو بڑی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چند نام نہاد لیڈروں نے مسلمانوں میں طبقاتی تقسیم پیدا کر کے لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ دوسرے ان کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ سیاستدانوں نے عوام کے دلوں کو گرمانے کے لیے ایسے ایسے بیانات داغے ہیں جو سراسر بے بنیاد تھے۔ سادہ لوہ عوام نے انہیں سچ مان لیا۔ متعصب اور عامیانہ رویے کے مذہبی لیڈروں نے فرقہ پرستی کا وہ بیج بویا کہ ہر مسلمان صبر و برداشت، رواداری، امن اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے بجائے اپنا عقیدہ دوسروں پر مسلط کرنے کی دوڑ میں لگ گیا۔
آزادی کے 70 سال مسلمانوں پر بڑے بھاری گزرے ہیں۔بڑی بڑی تکلیفیں سہی ہیں جن میں برابری مسجد انہدام سے لے کر ممبئی بم بلاسٹ، مظفر نگر فسا، گجرات فساد د اور عشرت جہاں انکاؤنٹر وغیرہ شامل ہیں۔ ایسے اور کئی حادثات واقعات گزرے ہیں جن کی مار اب تک مسلمان بخوشی جھیل رہا ہے چاہے وہ سلاخوں کے اندر ہوں یا باہر۔ خود کو مسلمانوں کا ہمدرد کہلانے والی چند نام نہاد پارٹیاں جن میں سر فہرست کانگریس پارٹی ہے،مسلمانوں کی مذہبی دل آزاری کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ کانگریس پارٹی نے بابری مسجد کا تالا تو کھلوادیا لیکن مسجدکے انہدام کے بعد ہونے والے فساد کا حل نہیں نکالا۔ مسلمانوں نے اس وقت سے لے کر آج تک اس ساری کارروائی پر اف تک نہیں کیا۔ اس لئے بی ایم سی انتخابات میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں تک ایس پی کا تعلق ہے ان کا تو کام بولتا ہے۔ واقعی یوپی میں ہوئے مظفر نگر فساد میں اکھیلیش حکومت کا پورا پولیس نظام فسادیوں کے ساتھ کندھا سے کندھا ملائے کھڑا تھا۔اسی پارٹی کے کرتا دھرتا مسلم لیڈر اعظم خان جو اپنی تیز و طرار زبان سے پہچانے جاتے ہیں، کی زبان بند کروائی گئی تھی۔ اتنا ہی نہیں جب دادری کے اخلاق پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تھے تب بھی ظالم کو سزا سنانے کے بجائے گوشت کی جانچ پڑتال کروائی گئی۔یہ ہیں ہمارے سچے خیر خواہ! صد افسوس!ان لیڈروں کے اقتدار پر قابض ہونے کے باوجود بھی مسلمان ہمیشہ اپنے حق سے محروم رہا۔
آج ہندوستان کے اندر جو مسائل، مصیبتیں، پریشانیاں، بدامنی، مہنگائی در پیش ہیں ان سب کا اصلی ذمہ دار کون ہیں؟ اور کیاملک کے جو مودہ حکمران ہیں وہ صحیح معنوں میں مسلمانوں کے ساتھ مخلص ہیں؟ نہیں۔ ان حکمرانوں کا ماضی ہم سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پھر ان حکمرانوں کو یہ حکومت کس نے دی؟ اس ملک کی موجودہ حکومت کسی اور نے نہیں ہم مسلم عوام کے ووٹس نے بنائی ہے۔ مودی حکومت کی جیت مسلمانوں کی طبقاتی تقسیم کا نتیجہ ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی اس نے باقاعدہ مسلمانوں کے خلاف مہم کھول لی جس کے پختہ ثبوت ہم مسلمانوں کے سامنے ہیں۔ اتر پردیش میں بی جے پی کی غیر معمولی فتح کے بعد یوگی سرکار نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا۔ سینکڑوں گوشت کی دکانیں بند کروائی جس سے گوشت تاجروں میں شدید بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔لوگوں میں خوف کا ماحول ہے راتوں رات لاکھوں افراد کو بے روز گار کر دیااور نعرے لگاتی ہے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘۔ دراصل بی جے پی اپنے کٹر ہندوتوا ایجنڈے پر حکومت کرتی ہے۔ اسی لئے تو سب کا وکاس نہیں،سب کا (مسلمان کو) وناش ہو رہا ہے۔ مسلم آبادی بڑھنے پر غور و فکر کی تدبیر کرنا مسلمانوں کا انکاؤنٹر کر کے فرضی کہانی بنا کر انہیں دہشت گرد ثابت کرنا کٹر ہندوتوا کی پہچان ہے۔
بھولا تو مسلمان نے گجرات کافساد بھی نہیں ہے جب نریندر مودی وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان تھے انہی کے ہی سرکاری دیکھ ریکھ میں دنگا کروایا گیا تھا۔ بڑے پیمانوں پر مسلمانوں کا قتل عام ہوا عورتوں کا استحصال کیا گیا۔اس دنگے نے ہندوستان کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہندوستان کی باگ ڈور سماج دشمن عناصر کے ہاتھوں میں چلی جانے سے ہماری شاخیں اندر ہی اندر کھوکھلی ہو گئی ہیں اور کن کن واقعات کا ذکر کیا جائے حالانکہ گلستان کو برباد کرنے کے لئے ایک ہی الو کافی ہے لیکن یہاں تو ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے۔
مسلمان آج کی تاریخ میں سب سے زیادہ ذہنی اذیتیں سہنے والا جانور بن چکا ہے۔حیرت ہے جس گلستان کو سر سبزو شاداب رکھنے کے لئے مسلمانوں نے اپنے لہو سے سینچنے میں بھی گریز نہیں کیا آج وہی ہر طرف شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ بار بار اسے ملک کے لئے اپنی وفاداری ثابت کرنا پڑ رہی ہے۔ ہمیں آپسی تقرفہ کو بھلا کر اتحاد کا دامن تھامنا ہے متحد ہو کر ایک ایسی تنظیم کا آغاز کرنا ہے جس کے ذریعے ہم سیاسی سطح پر اپنے حقوق کو منوا سکیں۔ ہمارے کل میں بہت سی غلطیاں ہیں جن سے ہمیں سبق سیکھنا ہے۔ وہ سب کچھ جو ہمیں نہیں ملا۔ ہمیں آنے والی نسلوں کو دے کر جانا ہے۔ہمیں اس گلستان کو بچانا ہے ان فرقہ پرست پارٹیوں سے جو اپنے فائدے کے لئے ہمیں آپس میں لڑوا رہی ہیں۔ہمیں اس گلستان میں جوہمارا ملک ہے سخت محنت کرنا ہے اس میں یقیناً ہمارے ہاتھ بھی چھلیں گے۔ ہمارے پاؤں بھی زخمی ہوں گے۔آج ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑنے ہونے والے بہت کم ہیں لیکن ہمیں اب سنجیدہ ہو کر اس گلستان کو بچانے کی سعی کرنا ہو گی ورنہ
؎ ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
نوشین انصاری
No comments:
Post a Comment