ہمارے معاشرے میں جہیز ایک لعنت، معاشرتی برائی اور ناسور بن کر خواتین کے وجود کی نفی کر رہا ہے۔ معاشرتی تقاضوں کو دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شادی اور جہیز لازم و ملزم جزو ہے۔ جب کہ نبی پاک ﷺنے فرمایا نکاح کے لیے جو معیار ہے وہ دین ہے۔آجکل جگہ جگہ ایسی باتیں سننے کو ملتی ہے کہ فلاں کی بیٹی کی شادی اس شرط پر رکھی گئی ہے کہ ہمیں جہیز پہ یہ چیزیں چاہیے، ہم اتنے لوگوں کی بارات لے کر آئیں گے جس کی وجہ سے ایک باپ کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے اپنی بیٹی کو رخصت کرنا.جہیز پر اسلام میں سخت پابندی ہے اور اسلام میں بھی مالی ذمہ داری شوہر پر عائد کی ہے۔ ”جہیز“ یہ ایک خالص ہندوانہ رسم ہے جس کا مقصد رخصتی کے وقت بیٹی کو اتنا کچھ دے دینا ہے کہ وہ وراثت میں اپنا حصہ نہ مانگ سکے لیکن اسلام میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اسلامی احکام کے مطابق جو نکاح جتنا زیادہ آسان ہوگا، اتنا ہی بابرکت ہوگا۔ اس کے برعکس جتنی نمود و نمائش کی جائے گی اتنی ہی بے برکتی بھی ہوگی۔ چناں چہ کتنے ہی نکاح ایسے ہوئے کہ دلہن شادی کے چند دنوں بعد ہی طلاق کا داغ لیے اپنے باپ کے گھر آبیٹھتی ہے یا پھر جہیز کم لانے کی وجہ سے اُس کی زندگی کا چراغ ہی گُل کر دیاجاتا ہے۔
معاشرے میں اب ایک نیا سلسلہ کاروبار کی شکل میں سامنے آیا ہے کہ جتنا ہو جہیز ملے ہم کو۔ لوگوں کو اندازہ نہیں ہے جس باپ کی جوان بیٹیاں ہیں آج کے دور میں وہ کتنی مشکل میں زندگی گزار رہا ہے.اگر اچھے رشتے مل بھی جائیں تو لڑکے والوں کے نخرے آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جو اپنی بیٹی کو کسی شہزادی سے کم نہیں سمجھتے اور دوسروں کی بیٹیوں کو لونڈیوں کی طرح سمجھتے ہیں۔بات بات پر طعنے دیتے ہیں کہ فلاں کے بیٹے کی شادی تھی ان کے جہیز میں اتنا کچھ آیاتم نے ہمارے خاندان کی ناک کٹوا دی۔ دیکھا جائے تو بہت ساری طلاقیں بھی جہیز کی لڑائی کی وجہ سے ہو تی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے جہیز نا ملنے کی وجہ سے غریب کی بیٹی کا رشتہ کوئی قبول نہیں کرتا۔ اگر کوئی سرمایہ دار کسی غریب کی بیٹی کی شادی کی ذمہ دار قبول کر بھی لے تو پورے علاقے میں خبر پھیل جاتی ہے فلاں کی بیٹی کی شادی ہے ان کے پاس جہیز کے پیسے نہیں تھے۔ ایسی شادیوں کو نمائش کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور غریب کی غربت کا تماشہ بنایا جاتا ہے۔
آخر لوگ کیوں جہیز کا لین دین کرتے ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ معاشرے میں اپنی عزت و وقار برقرار رکھنے کے لیے جہیز دینا، اپنے مال کی تشہیر کرنا، دولت کی نمود و نمائش، شان و شوکت اور شہرت کا اعزاز حاصل کرنا ہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کی دیکھی دیکھا بھی جہیز دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ تعاون، ہدیے اور صلہ رحمی کے لیے بھی جہیز دیتے ہیں۔ خواہ اس کے لیے انہیں قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ جہیز کی رسم کئی ایک مفاسد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مثلا ًمال کا ضیاع، گھر کی تباہی، عورتوں کی حقِ وراثت سے محرومی، کثرت طلاق اور لڑکی کی موت وغیرہ۔ اور یہ مفاسد کیوں نہ ہوں جب کہ جہیز کا مال خوشی سے دیا ہوا نہیں ہوتا۔ ایسے مال میں برکت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے درج بالا مفاسد اکثر اوقات سامنے آتے رہتے ہیں۔
جہیز کا معاملہ اصل میں لڑکی والوں نے بھی خراب کیا ہوا ہے۔جھوٹی نمائش اور شان و شوکت کی خاطر شادی سے پہلے سجاسجایا جہیز وقت سے پہلے لڑکے والوں کے گھر پہنچاکر لڑکی والے اپنی حیثیت بتا تے ہیں۔ پھر یہی دیکھ کر دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں۔ والدین بس یہ سوچتے ہیں کہ فلاں نے اپنی بیٹی کو جہیز میں یہ کچھ دیا ہے تو ہم اُس سے زیادہ دیں گے۔ چونکہ جہیز جیسی معاشرتی برائی کو ہر طبقے نے قبول کر لیا ہے اسی لئے اگر بیٹی والے سسرالیوں کی توقعات پر پورا اترنے سے چوک جائیں تو اس کا خمیازہ ان کی بیٹی کو ذہنی و جسمانی تشدد کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہیز کی لعنت اتنی پھیل چکی ہے کہ لڑکا نکاح سے پہلے اپنے سسرال سے شرائط مقرر کرلیتا ہے کہ میں نے کار، موٹرسائیکل، فریج، ٹی وی وغیرہ اشیا بھی لینی ہیں اگر دے سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ میری طرف سے جواب سمجھیں۔نہ جانے یہ جہیز کے نام پر بکنے والے مرد حضرات جہیز لیتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کل کو ان کی بھی بیٹیاں بیاہنی ہوگی، کل کو وہ بھی ایسے ہی حالات سے دو چار ہوں گے۔اس لئے میرے بھائیو! کچھ غیرت مندانہ قدم اٹھائیں اور جہیز کے خلاف بولیں، کیونکہ جہیز مانگ کر مال و اسباب جمع کرنا کوئی شریفانہ طریقہ نہیں۔ تمہاری عظمت اور تمہارا وقار اس میں ہے کہ تم کسی دکھی اور غریب و پریشان حال کے لیے ایک با عزت زندگی کا سہارا بنو اور اسے اپنی زوجیت میں لا کر اس کا دکھ، درد اور اس کا رنج و الم دور کرو، نہ کہ وہ خود اپنے جہیز سے تمہاری محتاجی و غربت کا علاج کرے۔
مسلمانوں میں جو لوگ بااثر، دین دار اور قومی جذبہ رکھنے والے ہیں انھیں حتمی طور پر اس جہیزکی لعنت کے خلاف صف آرا ہونا پڑے گا اور خصوصاً نوجوانوں کو اس راہ میں قربانی دینی پڑے گی کیوں کہ کل وہ بھی ایک بیٹی کے باپ ہوں گے۔ معاشرے میں مسلمانوں کی ایسی کئی جماعتیں ہیں جو کافی اثر و رسوخ رکھتی ہیں انہیں چاہئے کہ جہیز کے خاتمے کے لئے باقاعدہ مہم چلائے۔ نوجوانوں کے فکر و مزاج میں تبدیلی لائی جائے، تصورات و خیالات، معاملات و عادات کو اسلامی و ایمانی رنگ میں ڈھالا جائے تب ہی جہیز جیسی لعنت اور اس سے پیدا ہونے والے مفاسد کا سد باب ہو سکتا ہے اور ان باتوں کو بروئے کار لانے کے لیے شہر شہر، گاؤں گاؤں، محلہ محلہ ایسی تنظیموں کا وجود ضروری ہے جو سماج میں موثر، مخلص اور و دردمند افراد پر مشتمل ہونے کے ساتھ سرگرمِ عمل بھی ہوں۔ اگر یہ تنظیمیں قائم ہو کر دلچسپی و سرگرمی کے ساتھ برائیوں کے خلاف بر سر پیکار رہیں تو ان کے ذریعہ بہت سے دوسرے اصلاحی و فلاحی کام بھی انجام پا سکتے ہیں۔
جس طرح ہمارے واعظ اور مقرر شدت کے ساتھ عقائد، ایمانیات، بدعات و شرکیات پر بیان دیا کرتے ہیں اس شدت کے ساتھ جہیز کے بارے میں بیان نہیں کرتے۔ مسلکی اختلافات پر فریقین جسطرح ایک دوسرے کے خلاف دندناتے ہوئے جلوسوں اور جلسوں میں مظاہرے کرتے ہیں، گرجدار شعلہ بیان تقریروں کے ذریعے ایک دوسرے پر کفر، شرک اور نہ جانے کیا کیا فتوے لگاتے ہیں وہی جوہرِ شعلہ بیانی کبھی جہیز کی لعنتوں کے خلاف نہیں صرف کرتے۔ ذرا غور کیجئے! ہمارے معاشرے میں لوگ ہزاروں لاکھوں روپیہ جہیز پر صرف کرتے ہیں اگر وہی روپیہ پیسہ لڑکیوں کی تعلیم پر لگایا جائے تو ایک بہترین معاشرہ تشکیل پا سکے گا اور مسلم قوم کی بیٹیوں کا اصل معیار سامنے آئے گا۔ تو آیئے! عہد کریں جہاں تک ممکن ہو سکے اس رسم کو ختم کرنے میں اپنا کردار اداکریں اور لوگوں میں اس کی حقیقت کا شعور بید ار کریں۔
نوشین انصاری